طالبان کا قبضہ: افغانستان میں کیا ہورہا ہے اور اب آگے کیا ہونے جارہا ہے؟
دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد امریکی فوج کے مکمل انخلا سے 2 ہفتے قبل 15 اگست کو طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
طالبان جنگجوؤں نے افغانستان بھر میں دھاوا بولا اور کچھ ہی دنوں میں تمام بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا جبکہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی تربیت یافتہ اور ان کے ہتھیاروں سے لیس افغان سیکیورٹی فورسز کچھ نہ کر سکیں۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلق ہم کیا جانتے ہیں اور اب آگے کیا ہونے جارہا ہے اس کا ایک جائزہ مندرجہ ذیل رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے:
افغانستان میں کیا ہو رہا ہے؟
1990 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان پر حکمرانی کرنے والے جنگجو گروہ، طالبان نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے۔
2001 میں افغانستان پر امریکا کی قیادت میں کیے جانے والے حملے نے طالبان کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن وہ کبھی ملک سے گئے نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: افغان طالبان کا جنم سے عروج تک کا سفر
حالیہ دنوں میں جب طالبان نے ملک بھر میں قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مغربی حمایت یافتہ حکومت جو 20 برس سے ملک چلارہی تھی، اس قبضے کے نتیجے میں اپنے خاتمے کو جاپہنچی۔
اس وقت افغان شہری اپنے مستقبل کو لے کر خوفزدہ ہیں اور ایئرپورٹ کی جانب دوڑ رہے ہیں جو ملک سے باہر جانے کا واحد راستہ ہے۔
لوگ ملک سے فرار کیوں ہو رہے ہیں؟
وہ پریشان ہیں کہ ملک انتشار کا شکار ہوسکتا ہے یا طالبان، ان لوگوں پر انتقامی حملے کر سکتے ہیں جنہوں نے امریکیوں یا حکومت کے ساتھ کام کیا۔
بہت سے لوگوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ طالبان دوبارہ سخت اسلامی نظام نافذ کر دیں گے، جس پر وہ 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکمرانی کے دوران انحصار کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل
اُس وقت خواتین کو اسکول جانے یا گھر سے باہر کام کرنے سے روک دیا گیا تھا، انہیں برقعہ پہننا پڑتا تھا اور جب بھی وہ باہر جانا چاہتی تھیں تو ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار لازمی طور پر ساتھ ہوتا تھا۔
طالبان نے موسیقی پر پابندی لگادی تھی، چوروں کے ہاتھ کاٹے تھے اور زانیوں کو سنگسار کیا تھا۔
حالیہ چند برسوں میں طالبان نے خود کو ایک زیادہ اعتدال پسند قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ بدلہ نہیں لیں گے لیکن بہت سے افغان ان وعدوں پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
طالبان اب اقتدار پر کیوں قابض ہو رہے ہیں؟
شاید اس لیے کہ رواں ماہ کے اواخر تک امریکی فوجی مکمل طور پر افغانستان سے انخلا کے لیے تیار ہیں۔
امریکا کئی سالوں سے اپنی طویل ترین جنگ کو ختم کرکے افغانستان سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
القاعدہ کے 9/11 حملوں کے چند ماہ بعد انہیں پناہ دینے کے نتیجے میں امریکا نے طالبان کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔
تاہم بارہا جنگوں سے متاثر ہونے والی قوم کو ازسرِ نو تعمیر کرنا اور افغان سرزمین پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل ثابت ہوا۔
مزید پڑھیں: طالبان کی قیادت میں کون لوگ شامل ہیں؟
جیسے ہی امریکا کی توجہ عراق کی جانب منتقل ہوئی، طالبان نے دوبارہ منظم ہونا شروع کیا اور حالیہ برسوں میں افغان دیہی علاقوں کا زیادہ تر حصہ سنبھال لیا تھا۔
گزشتہ برس، اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کرتے ہوئے طالبان سے معاہدہ کیا تھا اور ان کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کو محدود کردیا تھا۔
جس کے بعد موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ اگست کے آخر تک ان کے فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے۔
جیسے ہی امریکی انخلا کی حتمی مہلت نزدیک آئی، طالبان نے تیزی سے شہر دَر شہر قبضہ کرنا شروع کیا۔
افغان سیکیورٹی فورسز، طالبان کے آگے کیوں زیر ہوگئیں؟
اس کا مختصر جواب کرپشن ہے۔
امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے دو دہائیوں تک افغان سیکیورٹی فورسز کو تربیت دینے اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن مغربی حمایت یافتہ حکومت بدعنوانی کی لپیٹ میں تھی۔
کمانڈروں نے وسائل چھیننے کے لیے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جبکہ میدان میں موجود فوجیوں میں اکثر گولہ بارود، سامان یا خوراک کی کمی ہوتی تھی۔
ان کے حوصلے مزید پست ہوئے جب یہ واضح ہو گیا کہ امریکا اپنے انخلا کے راستے پر ہے۔
حالیہ دنوں میں جب طالبان نے تیزی سے پیش رفت کی تو مختصر لڑائیوں کے بعد پوری یونٹس نے ان کے آگے ہتھیار ڈال دیے جبکہ کابل اور کچھ قریبی صوبے بغیر کسی لڑائی کے طالبان کے قبضے میں گئے۔
افغانستان کے صدر کو کیا ہوا؟
افغان صدر اشرف غنی 15 اگست کو ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
جب طالبان نے ملک بھر پر قبضہ کیا تو صدر اشرف غنی نے ہار مان لی اور کچھ عوامی بیانات دیے۔
15 اگست کو جب طالبان دارالحکومت کابل پہنچے تو انہوں نے افغانستان چھوڑ دیا اور بعد ازاں یہ کہا کہ مزید خونریزی سے بچنے کے لیے انہوں نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیا۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اشرف غنی کہاں گئے ہیں۔
لوگ افغانستان کا موازنہ سیگون میں ہار سے کیوں کر رہے ہیں؟
1975 میں شمالی ویتنامی فورسز کے ہاتھوں سیگون پر قبضے نے ویتنام جنگ کا خاتمہ کردیا تھا۔
یہ ہزاروں امریکی شہریوں اور ویتنامی اتحادیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شہر سے لے جانے کے بعد شکست کی ایک پائیدار علامت بن گئی تھی۔
تاہم امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان سے اس موازنے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'یہ سیگون نہیں ہے'۔
افغانستان میں اب کیا ہوگا؟
یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں اب کیا ہونے جارہا ہے۔
طالبان کے مطابق وہ دوسرے گروہوں کے ساتھ مل کر ایک 'جامع، اسلامی حکومت' قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ سابق حکومت کے رہنماؤں سمیت سینئر سیاستدانوں سے مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔
انہوں نے اسلامی قانون نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن کہا کہ وہ دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد معمولاتِ زندگی کی بحالی کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘طالبان جیت چکے’، خون ریزی سے بچنے کیلئے افغانستان چھوڑ دیا، اشرف غنی
لیکن اکثر افغان شہری طالبان پر عدم اعتماد کرتے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کی حکومت پرتشدد اور جابرانہ ہوگی۔
ایک چیز جو لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں وہ یہ ہے کہ طالبان، ملک کو دوبارہ اماراتِ اسلامی افغانستان کا نام دینا چاہتے ہیں جو وہ اپنے دورِ حکومت میں پکارتے تھے۔
خواتین کیلئے طالبان کے قبضے کا کیا مطلب ہے؟
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کا مطلب کئی حقوق کا چھن جانا ہوسکتا ہے۔
طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے افغان خواتین نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اکثر خواتین پریشان ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر گھروں تک محدود ہوجائیں گی تاہم طالبان نے کہا کہ اب وہ خواتین کے اسکول جانے کے خلاف نہیں ہیں لیکن انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کی۔
افغانستان ایک بہت زیادہ قدامت پسند ملک رہا یہاں تک کہ طالبان کے دور میں بھی خواتین کی حیثیت اکثر مرتبہ مختلف رہی ہے۔
کیا طالبان دوبارہ القاعدہ کو پناہ دیں گے؟
یہ کسی کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے لیکن امریکی فوجی حکام اس حوالے سے پریشان ہیں۔
گزشتہ برس طے پانے والے امن معاہدے میں طالبان نے دہشت گردی سے لڑنے اور افغانستان کو دوبارہ حملوں کے لیے اڈا بننے سے روکنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن امریکا مختصر پیمانے پر اسے نافذ کرا سکتا ہے۔
گزشتہ 20 سالوں میں ٹیکنالوجی میں آنے والی جدت امریکا کو یمن اور صومالیہ جیسے ممالک میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتی ہے جہاں اس کی فوج مستقل طور پر موجود نہیں ہے۔
طالبان نے 11 ستمبر کے حملوں میں اپنے کردار کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے اور ممکنہ طور پر امید ہے کہ وہ اسے دہرانے سے گریز کریں گے کیونکہ وہ اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم رواں برس کے اوائل میں پینٹاگوں کے اعلیٰ عہدیداران نے کہا تھا کہ القاعدہ جیسے انتہا پسند گروہ افغانستان میں دوبارہ سَر اٹھا سکتے ہیں اور وہ اب خبردار کر رہے ہیں ایسے گروہ توقع سے زیادہ تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔
افغانستان میں داعش سے وابستہ گروہ بھی موجود ہیں جنہوں نے حالیہ برسوں میں اس کی اہلِ تشیع اقلیت کو نشانہ بناتے ہوئے ہولناک حملے بھی کیے تھے۔
طالبان نے ایسے حملوں کی مذمت بھی کی اور یہ دونوں گروہ علاقے کے معاملے پر ایک دوسرے سے لڑ بھی چکے ہیں لیکن اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان کی حکومت، داعش کو دبانے کے لیے آمادہ یا ایسا کرنے کے قابل ہوگی یا نہیں۔