جب ہمیں پتا چلا کہ اُس اخبار میں کوئی تنخواہ نہیں ملتی!
اب 'کہانی' کتنی باقی رہ گئی ہے، حتمی طور پر اس کے بارے میں بھلا کیا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن 10 برس کا ایک اندازہ لگائیے، تو اب ایک تہائی قصہ تو تمام ہو ہی گیا ہے، کیونکہ 2 جولائی 2021ء کو ہمیں صحافت کی روزی روٹی کھاتے ہوئے پورا ایک عشرہ بیت چکا ہے۔ اگر ہمارے لکھنے لکھانے وغیرہ کے زمانے سے یہ وقت شمار کیجیے، تو یہ قصہ 4 برس اور بڑھ جاتا ہے، لیکن 'ماسٹرز' کے اگلے برس باقاعدہ صحافت کے آغاز کو ہم ایک سنگِ میل تصور کرتے ہوئے اس کو 'ابتدا' قرار دے سکتے ہیں۔
لیکن اس دشت کی سیاحی شروع ہونے سے پہلے کتنے قصے ہیں، کتنی کہانیاں ہیں، جو اگر لکھنے بیٹھیے، تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اب بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم کی جائے، لیکن بات شروع تو کرنی ہی ہے۔
کوشش کریں گے کہ جو کہیں سچ ہی کہیں اور اپنی اس ان کہی 'کہانی' کا پورا حق بھی ادا کریں۔ تو سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ 'صحافت' ہم جیسے 'آرٹس' کے طالب علم کے لیے آگے بڑھنے کی ایک ایسی راہ بنی، جس نے بس اس اوسط درجے کے طالب علم کی ساری 'قابلیت' کا گویا بھرم رکھ لیا۔ ہم وہ، جسے میٹرک میں آتے تک یہ 'یقین' ہو چلا تھا کہ اب ہم کسی بھی 'کام' کے نہیں رہے۔ اب کوئی دکان ہوگی اور ہم وہاں 'دکان داری' کے گُر سیکھیں گے۔
ہمارے اردگرد اور اسکول کا ماحول تقریباً یہی تھا کہ آرٹس کا تو پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہی ہے۔ سائنس ہم کر نہیں سکتے تھے اور 'کامرس' کا معاملہ تو ہوش سنھبالنے سے ہی خوب آشکار تھا۔ ہمیں پہاڑے ہمیشہ پہاڑ جیسے معلوم ہوئے، اسے رٹنے سے روزِ اول سے ہی حد درجہ الجھن رہی، ہمیں یوں محسوس ہوتا کہ ان پہاڑوں کے اس شمار میں کوئی عجیب سا آسیب ہے۔
پڑھیے: صحافت کا سہرا: صحافی تو میں بن گیا، مگر بنا کیسے؟
زندگی میں شاید 2 کے بعد 3 کا پہاڑا ہی ٹھیک سے یاد کیا ہوگا، شاید 4 کا پہاڑا بھی رٹ گیا ہو اور 5 کا تو بہت آسان ہی تھا، لیکن اس سے آگے کوئی پہاڑا ہم تادیر یاد نہ کرسکے۔ پہاڑے گِن گِن کر لکھنے کا کلیہ بھی ایسا 'منحوس' نکلا کہ ہر بار درمیان میں ایک ہندسے کی غلطی سرزد ہوتی، جو پھر آگے تک چلتی چلی جاتی اور صاف پتا چل جاتا کہ دراصل ہم نے کیا 'کاری گری' دکھائی ہے۔
اس لیے 'میتھ' سے ہمیں ہمیشہ 'موت' کا سا گماں رہا اور ہم صرف امتحانات شروع ہونے کے بعد ہی چاروناچار اس میں کامیاب ہونے کے لیے اسے سیکھنے کا کچھ سامان کرتے، اور مجبوراً ضرب تقسیم کی عجیب و غریب مشقوں کا جیسے تیسے کچھ فہم حاصل کرتے۔ جس میں یہ بھی طے کرتے کہ اگلے سال ریاضی کی ایسی ساری پیچیدگیاں ہاتھ کے ہاتھ سیکھتے چلے جائیں گے، ورنہ سال بھر کا کام ایک ساتھ سمجھنا بڑا دشوار ہوتا ہے، مگر ایسا کبھی ہو ہی نہیں پاتا تھا اور ہم اگلے برس پھر اسی طرح آئندہ سال کے لیے کبھی ایفا نہ ہونے والا عہد دہراتے ہوئے نظر آتے۔
میٹرک کے بعد صرف اپنے ابو کے دباؤ پر ہمارے کالج میں داخلے کا ذہن بنا، ورنہ یہ سوچتے تھے کہ جب اسکول کے اساتذہ سمیت سبھی یہ کہتے ہیں کہ آرٹس کا کوئی مستقبل ہی نہیں، تو پھر کیا پڑھنا۔ نہ ہی ہمیں دو چار کے علاوہ آرٹس کے دیگر مضامین کی کچھ سُن گن تھی۔ وہ تو بھلا ہو میٹرک کے زمانے کے کچھ اساتذہ کا، جنہوں نے ہماری اس تشنگی کو کافی دُور کیا اور ہمیں آرٹس کے مضامین اور اس سے منسلک متوقع شعبوں کے بارے میں کچھ بتا دیا۔
ہمیں یاد ہے کہ 'صحافت' بھی انہی 8، 10 مضامین میں سے ایک تھا۔ لیکن دیگر بہت سے مضامین کی طرح ہمیں اس کی ماہئیت اور نفسِ مضمون کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔ پھر کراچی میں کالج کی سطح پر یہ مضمون کہیں بھی موجود نہ تھا، تاہم ہم نے اتوار کے اخبار میں 'اسلام آباد اکیڈمی' کے 'گھر بیٹھے تعلیم و ہنر' کا اشتہار دیکھ کر 8 ماہ کا 'صحافت' کا کورس بھی منگوالیا۔
پڑھیے: پاکستانی صحافت: آگ کا دریا
اب یہ بھی سن لیجیے کہ یہ کورس وورس کیا تھا، ایک طرح کی دھوکا دہی ہوتی تھی کہ بس 'علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی' کی بی اے کی سطح کی کچھ کتابیں ہمیں مہنگے داموں بیچ دی گئی تھیں، لیکن اس سے ہمیں 'فرسٹ ایئر' میں ہی صحافت سے متعلق اچھی خاصی جان کاری مل گئی۔ صحافت کے شعبے، تاریخ، اخبارات، صحافی اور اخبارات میں کام کرنے کے طریقہ کار اگرچہ کافی پُرانے لکھے ہوئے تھے، لیکن ہمارے لیے یہ بہت اہم تھے، ہم نے باقاعدہ اس کے نوٹس بھی بنائے۔
کالج کے ایک استاد سے اس حوالے سے تبادلہ خیال بھی ہوتا، ہمیں پتا چلا کہ اب صحافت کے بجائے 'ابلاغ عامہ' پڑھایا جاتا ہے، جس میں ابلاغیات کے دیگر شعبوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، یوں ہم 'ابلاغ عامہ' میں داخلے کا خواب دیکھنے لگے تھے، تو ہمارے کالج کے ایک ٹیچر نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایمانداری کی صحافت ممکن نہیں، جس سے کچھ وقت ہم مایوسی میں بھی رہے، تاہم انٹر میں ہمارے ہم محلہ ناصر تیموری کے ایک خبری ایجینسی 'سدا نیوز' میں کام کرنے کا انکشاف گویا کسی ویرانے میں بہار لے آیا!
رمضان میں سحری کے بعد ملاقات میں جب ہمیں یہ بات پتا چلی تھی، تو ہم صبح ہونے تک ان سے اس حوالے سے محو گفتگو رہے تھے اور اپنی خواہش کا اظہار کر بیٹھے کہ ہمیں کسی طرح وہاں صحافت سیکھنے کا موقع دلوا دیجیے۔ بعد میں انہوں نے بتایا تھا کہ دفتر والے کہتے ہیں کہ پہلے کم از کم گریجویشن تو کرلیں، پھر کوئی راستہ نکالیں گے۔
اس واقعے کے بعد ہم نے باقاعدہ اپنی ایک سمت متعین کرلی تھی کہ ہمیں آگے یہی کچھ کرنا ہے۔ پہلی 'سی وی' میں بھی یہ 'مشن' نمایاں تھا اور اسی زمانے میں 'ضرورت ہے' کے اشتہار میں ہم اپنی یہ 'سی وی' بنا کر مطلوبہ پتے پر مدینہ سینٹر (صدر) پہنچے۔ 'سنسنی خیز' نامی کسی نئے اخبار کے دفتر کے نام پر دو شٹر کی کونے کی ایک 'دکان' میں ایک بیٹھک سی بنی ہوئی تھی۔
پڑھیے: برائلر صحافت سے بچنا ہے تو اٹھنا ہوگا
ایک مناسب سا شخص ہماری 'سی وی' ہاتھ میں لیے ہماری تعلیم وغیرہ کے حوالے سے محوِ کلام تھا کہ کچھ دیر میں ایک پستہ قد، دبلا پتلا سا قمیض پتلون پہنا ہوا ایک آدمی آیا۔ گٹکا تھوکتا ہوا یہ شخص ہمیں واضح طور پر کم تعلیم یافتہ دکھائی دیتا تھا۔ پتا چلا کہ یہ 'مدیر صاحب' ہیں! ہم جو ابھی 'سنسنی خیز' نام پر ہی ان سے الجھ رہے تھے کہ صحافی کو تو سنسنی خیزی سے دُور رہنا چاہیے، لیکن آپ نے اپنے اخبار کا نام ایسا کیوں رکھا؟ کہ ادھر 'مدیر' کے نام پر موجود فرد نے ہمیں شدید پریشان کردیا۔
پھر جب پہلے شخص نے اسے ہماری سی وی دکھائی اور پہلی ہی سطر میں موجود 'ایماندار اور کامیاب صحافی' بننے کے 'مقصد' پر انگلی رکھ کر معنی خیز انداز میں نشاندہی کی، تو باقاعدہ ہمارے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی تھی۔ ہمیں ان کے رویے سے اچنبھا ہوا تھا اور ہم نے پوچھا تھا کہ کیا یہاں رہتے ہوئے اس مقصد کی تکمیل ممکن نہیں ہے؟ لیکن انہوں نے بہت ہوشیاری سے بات اِدھر اُدھر گھما دی تھی۔
مدینہ سینٹر کی پہلی منزل پر سہ پہر کو یہ وقت ہمارے لیے کسی بھی اخبار سے تعارف کا گویا پہلا مرحلہ تھا۔ ہمیں عجیب سی الجھن ہو رہی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ شاید ہم کسی بہت غلط جگہ آکر پھنس گئے ہیں۔ دماغ میں بھونچال سا اٹھنے لگا اور جی چاہا کہ بنا مزید کچھ کہے سُنے، ہم ان کی میز پر دَھری اپنی 'سی وی' اٹھائیں اور سرپٹ باہر کی دوڑ لگا دیں۔
لمحے کے کسی چھوٹے سے حصے میں چشمِ تصور سے کسی فلمی منظر کی طرح ہم نے خود کو ایسے دوڑتے ہوئے بھی دیکھا، لیکن بس گومگو میں وہیں بیٹھے رہ گئے۔ ہمیں پریشانی تھی کہ بے شک ہم کل یہاں نہ آئیں، لیکن ہمارے فون نمبر اور گھر کے پتے وغیرہ لکھی ہوئی 'سی وی' تو ان کے پاس رہ جائے گی، جو درست نہیں۔ بہرحال صحافت سے ہمارا یہ عملی تعارف نہایت پریشان کن اور مایوسانہ تھا۔ اب ہمیں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ 'صحافت' کے نام پر ہو کیا رہا ہے۔
پڑھیے: میڈیا سے تعلق رکھنے والے دادا پوتی کی کہانی
اس کے بعد ایک مرتبہ اور ایسے ہی کسی 'ضرورت ہے' کے عوامی اشتہار کے تعاقب میں ہم برنس روڈ کے 'پریس چیمبر' پہنچے تھے۔ شام ڈھلے ایک نیم تاریک سی گلی میں واقع تقریباً تاریک اس عمارت میں 'ڈیلی اسپیشل' کا دفتر تھا۔ یہ اخبار چَھپ بھی رہا تھا، اخبار میں کام کرنے والے بھی تھے، لیکن بس اپنے انٹرویو کے انتظار میں جب وہاں کام کرنے والے ایک سیدھے سادے اخباری کارکن سے گفتگو ہوئی، آمد و رفت اور کام وغیرہ سے متعلق پوچھتے ہوئے ہم نے اندازہ لگانے کو تنخواہ کا پوچھا، تو اس بھولے لڑکے نے کئی بار ٹالتے ہوئے آخر کو بتا دیا تھا کہ 'بھائی، یہاں تنخواہ ونخواہ کچھ نہیں ہوتی!'
لو جی، اب یہ کہاں پھنسے! ہمیں حیرت بھی ہوئی کہ شہر کے قلب میں ایسے 'واہیات' اخبار بھی دھڑلے سے موجود ہیں، جو چلتے ہی اِدھر اُدھر کی کمائی پر ہیں!
قارئین، اگر آپ نہیں سمجھے، تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ اس کا مقصد تھا کہ خود اخبار کے نام پر جاکر لوگوں سے 'خبریں' بھی لو اور پیسے بھی۔ یعنی خبر دے کے بھی پیسے لو ورنہ پھر اخبار میں اس کی 'خبر لو' تو پھر وہ خود ہی پیسے دے گا، اور اس میں اخبار کے لیے بھی کوئی 'حصہ' ہوتا ہوگا، لیکن ہمارے لیے یہ 'زرد صحافت' کا ایک خاصا بھیانک انکشاف اور تعارف تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں