بلوچستان میں کئی روز سے جاری تنازع کا اختتام، وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی
بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی نے کئی روز تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
بلوچستان کے گورنر کے ترجمان پائند خان خروٹی نے بیان میں کہا کہ ‘جام کمال خان نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا کو جمع کرا دیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ گورنر بلوچستان نے جام کمال کا استعفیٰ منظور کر لیا۔
چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا کی جانب سے جاری نوٹفیکیشن میں کہا گیا کہ استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور اور کابینہ تحلیل ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں جام کمال نے کہا کہ ‘بہت سی سوچی سمجھی سیاسی رکاوٹوں کے باوجود میں نے بلوچستان کی مجموعی حکمرانی اور ترقی کے لیے اپنا وقت اور توانائی کو ایک سمت رکھا’۔
انہوں نے کہا کہ ’انشااللہ احترام کے ساتھ چھوڑنا چاہوں گا اور خراب حکمرانی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے مالیاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں بننا چا ہوں گا’۔
اس سے قبل جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے صوبے کے داخلی معاملات میں وفاقی کابینہ کے اراکین کی مداخلت روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ وفاقی کابینہ کے اراکین کو بلوچستان کے داخلی مسائل میں مداخلت سے روکیں‘۔
انہوں نے ’مداخلت کا باعث بننے والے اراکینِ کابینہ‘ کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ انہیں چاہیے کہ وہ بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا موقع دیں۔
جام کمال نے ابن العربی سے منسوب ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیاسی تحریک بلوچستان اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’حالیہ دو مہینوں میں بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آئی ہیں، سیاسی نام نہاد اصول، لالچ، اقتدار کی ہوس، سازش کرنے والے اور بہت سے ہیرو اور ساکھ کے ساتھ تیز لوگوں کا مقابلہ کیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی ترقی میں نقصان کی ساری ذمہ داری پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور بی اے پی کے بعض سمجھدار وفاقی کابینہ، چند مافیا اور بی اے پی (ناراض گروپ) پر عائد ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اراکینِ وفاقی کابینہ کی بلوچستان کے معاملات میں مداخلت روکیں، جام کمال
جام کمال نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں تجویز دوں گا کہ وہ اپنے اطراف میں موجود لوگوں پر نظر ڈالیں'۔
خیال رہے کہ 20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔
تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 65 کا ایوان ہے، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے اراکین اسمبلی مسنگ پرسن میں آ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا، جام کمال خان
انہوں نے کہا کہ کسی کا گلا دبا کر کوئی اقتدار میں نہیں رہ سکتا، یہ بلوچستان کی روایت نہیں ہے کہ کسی کو آپ مسنگ اور اغوا کریں اور ایوان کے تقدس کو پامال کریں، کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سردار عبدالرحمٰن نے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر لاپتا افراد کو بازیاب نہ کرایا گیا تو یہ ایوان اور پورا بلوچستان احتجاج کرے گا، ہم اس سطح پر نہیں جانا چاہتے، ہمارے لیے ہر ادارہ قابل اعتماد ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جب ایوان کا ایک شخص سے اعتماد اٹھ گیا ہے تو بہتر یہی ہو گا کہ جام کمال خان استعفیٰ دے دیں، اقتدار سے چپکے رہنے کا فائدہ نہیں ہے، آج پانچ لاپتا ہیں، کل مزید پانچ لاپتا کر لیں گے، شاید ان کی کرسی بچ جائے لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اخلاقیات اور بلوچستان کی روایت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر جام کمال خان مستعفی ہو جائیں کیونکہ ہم تاریخ میں یہ نہیں لکھوانا چاہتے کہ انہیں وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا۔
اس سے قبل اپوزیشن کے 16 اراکین اسمبلی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی لیکن گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے باعث تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔
بلوچستان میں بحرانی صورتحال
بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان عالیانی کی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کردیا تھا۔
یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا تھا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
مزید پڑھیں: میرے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی، جام کمال کا وزیراعظم سے ملاقات کے بعد دعویٰ
اس کے بعد اپوزیشن کے 16 ارکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی تاہم گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔
اس ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں 14 اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی کیونکہ عالیانی کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کا سامنا تھا جن کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کے لیے ان سے مشاورت نہیں کرتے۔
وزیراعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔