صدارتی نظام: عدالت کے پاس سیاسی نظام کی تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے ریفرنڈم کروانے سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلے میں کہا کہ عدالت کے پاس ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی سپریم کورٹ کے بینچ نے مختلف شہریوں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کی اور محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
مزید پڑھیں: ملک میں صدارتی نظام کا مطالبہ غیر آئینی ہے، لاہور ہائیکورٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ تحریر کیا اور قرار دیا کہ صدارتی نظام سے متعلق دائر درخواستوں میں سیاسی نوعیت کا سوال اٹھایا گیا، سیاسی نوعیت سے متعلق سوال پر آئین اور قانون میں رہنمائی موجود نہیں ہے۔
فیصلہ میں کہا کہ آئینی رہنمائی کی عدم موجودگی میں سیاسی سوال پر فیصلہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ عدالت کے پاس ملک میں سیاسی نظام کی تبدیلی کا فیصلہ دینے کا کوئی اختیار نہیں، سپریم کورٹ آئین پاکستان کی رہنمائی کے بغیر کسی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دے۔
انہوں نے کہا کہ درخواستوں پر رجسٹرار سپریم کورٹ کے دفتر کے اعتراضات درست ہیں، ملک میں صدارتی نظام کے قیام کے لیے ریفرنڈم کرانے سے متعلق دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 27 ستمبر 2021 کو ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے ریفرنڈم کروانے سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران رجسٹر آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے مذکورہ درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت کو سیاسی نظام کی تبدیلی کا حکم دینے کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ صدارتی نظام کے لیے دائر درخواستوں میں اٹھایا گیا نکتہ سیاسی ہے، صدارتی نظام کے لیے آئین کوئی رہنمائی نہیں کرتا،آئین پاکستان جمہوری نظام حکومت کی بنیاد پر ہے۔
عدالت نے بتایا تھا کہ آئین پاکستان کی بنیاد پارلیمانی نظام ہے، سپریم کورٹ آئین پاکستان کی رہنمائی کے بغیر کسی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی۔
اس سے قبل رواں برس فروری میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی قرار دیا تھا کہ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کا مطالبہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے ملک میں صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کرانے کی درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے کابینہ ڈویژن کو ہدایت دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 199 کے تحت کسی شخص کو صرف وہ کام کرنے کے لیے حکم نامے کی رٹ جاری کی جا سکتی ہے جو قانون کے تناظر میں کرنا ضروری ہو۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں صدارتی نظامِ حکومت پر ریفرنڈم کرانے کیلئے ایک اور درخواست
حفیظ الرحمٰن چوہدری نامی ایک شہری نے بیرسٹر احمد پنسوٹا کے توسط سے دائر پٹیشن میں متعدد درخواست کی تھی کہ کابینہ ڈویژن کو ہدایت کریں کہ وہ موجودہ نظام پر غور، بحث اور جائزے کے لیے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھیجے اور موجودہ نظام کا جائزہ لینے اور لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد کرے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ریفرنڈم کرانے کی درخواست جمہوریت سے متعلق آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔