کیا مثبت سوچ کے حامل افراد واقعی طویل عمر پاتے ہیں؟
مثبت سوچ رکھنے اور خوش رہنے کے انسانی زندگی پر مثبت اثرات پر بارہا اصرار کیا جاتا رہا ہے، یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ روزمرہ زندگی میں مثبت سوچ رکھنے والے افراد طویل عمر پاتے ہیں لیکن سائنسی شواہد کے بغیر اس پر یقین کرنا مشکل ہے۔
تاہم مثبت سوچ اور طویل عمر کے درمیان تعلق اور انسانی زندگی پر اس کے دیگر اثرات کے حوالے سے متعدد ریسرچز میں دلچسپ حقائق سامنے آچکے ہیں۔
اس حوالے سے مختلف رنگ و نسل اور متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والی ایک لاکھ 60 ہزار خواتین پر کی گئی ایک حالیہ تحقیق مثبت سوچ اور طویل عمر کے درمیان تعلق کی تصدیق کرتی ہے، اس کے مطابق مثبت سوچ طویل زندگی، حتیٰ کہ 90 سال سے زائد عمر تک جینے کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔
امریکن جیریاٹرکس سوسائٹی جنرل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق مثبت سوچ کے طویل عمر سے گہرے تعلق کے مقابلے میں خوراک کا معیار، جسمانی سرگرمی، باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی)، تمباکونوشی اور شراب نوشی سمیت صحت مند طرز زندگی کا معیار ناپنے کے دیگر عوامل کا اس سے تعلق محض ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیشنل لائف میں منفی سوچ رکھنے والوں سے نمٹنے کے طریقے
اس تحقیق میں شامل ہارورڈ ٹی ایچ چان اسکول آف پبلک ہیلتھ کی پوسٹ ڈاکٹریٹ کی طالب علم ہیامی کوگا نے کہا ’اگرچہ مثبت سوچ کا تعلق سماجی ساخت کے عوامل کے مطابق ہوسکتا ہے تاہم ہماری تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ مثبت سوچ کا طویل عمر سے تعلق رنگ و نسل کے پس منظر سے جڑا ہوتا ہے‘۔
طویل عمر اور مثبت سوچ کے درمیان مضبوط ربط تلاش کرنے والی یہ پہلی تحقیق نہیں ہے۔
سال 2019 کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مثبت سوچ کی اعلیٰ سطح کے حامل مرد و خواتین کی زندگی کا دورانیہ ان لوگوں کے مقابلے میں اوسطاً 11 سے 15 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو بہت کم مثبت سوچ رکھتے ہیں۔
حتیٰ مثبت سوچ کے حامل سب سے زیادہ اسکور حاصل کرنے والے بیشتر افراد 85 سال یا اس سے زیادہ عمر تک زندہ رہنے کا امکان رکھتے تھے۔
مزید پڑھیں: اچھی اور کامیاب زندگی میں مددگار آسان اصول
تحیقیق کے مطابق سماجی اقتصادی حیثیت، صحت، ڈپریشن، تمباکو نوشی، سماجی مصروفیت، ناقص خوراک اور شراب نوشی جیسے عوامل بھی جائزے میں شامل ہونے کے باوجود یہ نتائج درست ثابت ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مثبت سوچ سے مراد زندگی کے مسائل کو نظر انداز کرنا نہیں ہے لیکن جب منفی چیزیں ہوں تو مثبت سوچ کے حامل لوگ اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اسے عارضی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اس کے مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔
مثبت سوچ کے حامل افراد کا یہ بھی ماننا ہوتا ہے کہ ان کا اپنی قسمت پر کنٹرول ہے اور وہ مستقبل میں اچھی چیزیں ہونے کے لیے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مثبت اور پر امید رہنے سے آپ کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے، اس سے پہلے کی جانے والے تحقیق میں مثبت سوچ اور صحت مند غذا، ورزش، دل کی بہتر صحت، مضبوط مدافعتی نظام، پھیپھڑوں کی بہتر کارکردگی اور اموات کے کم خطرے کے درمیان براہ راست تعلق پایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک اچھا شریک حیات آپ کی زندگی کو کیسے بدل سکتا ہے؟
اس حوالے سے ایک اور تحقیق سے معلوم ہوتا کہ ہماری مثبت سوچ کا محض 25 فیصد تعلق ہمارے جینز سے ہے، باقی یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے مسائل پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔
اگر تناؤ کے وقت آپ کے مزاج میں تلخی آجانے کا زیادہ امکان ہے تو فکر نہ کریں، یہ تحقیق بتاتی ہے کہ آپ اپنے دماغ کو زیادہ مثبت رویہ اپنانے کی تربیت دے سکتے ہیں۔
اس حوالے سے کی جانے والی مختلف تحقیقات کے تجزیے کے مطابق مثبت سوچ کو بڑھانے کے سب سے مؤثر طریقوں میں سے ایک ’بہترین ممکنہ ذات‘کہلایا جاتا ہے، اس میں آپ اپنی ذات کو ایک ایسے مستقبل میں تصور کرتے ہیں جس میں آپ نے اپنی زندگی کے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور آپ کے تمام مسائل حل ہو چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 15 منٹ کے لیے ان تفصیلات کے بارے میں لکھنا شروع کریں جو آپ نے اپنے تصور میں مستقبل میں حاصل کرلی ہیں اور 5 منٹ یہ سوچنے میں گزاریں کہ یہ حقیقت کیسی دکھتی اور محسوس ہوتی ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ روزانہ اس پر عمل کرنے سے آپ کے مثبت جذبات میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔
مزید پڑھیں: لمبی زندگی کا راز آپ کے اپنے اندر چھپا ہے
سال 2011 کی ایک تحقیق میں طلبہ نے 8 ہفتوں تک ہفتے میں ایک بار 15 منٹ کے لیے یہ ورزش کی، وہ نہ صرف زیادہ مثبت محسوس کرنے لگے بلکہ یہ احساسات تقریباً 6 ماہ تک برقرار رہے۔
علاوہ ازیں اگر روزانہ چند منٹ ان چیزوں کے بارے میں لکھنے میں گزارے جائیں جو آپ کو شکر گزار بناتی ہیں تو یہ عمل بھی زندگی کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر کو مثبت بنا سکتا ہے۔
متعدد تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ شکر گزاری، عام منفی سوچ کو توڑ کر مثبت انداز میں زندگی کا مقابلہ کرنے کی مہارت کو بہتر بناتی ہے۔
تحقیق کے مطابق نعمتوں کو شمار کرنے کے عمل نے نوعمروں میں بھی پریشانیوں کو کم کیا۔