دعا زہرہ کیس: مشتبہ ملزمان کے منجمد بینک اکاؤنٹس بحال کرنے کا حکم
سندھ ہائی کورٹ نے حکام کو دعا زہرہ کے مبینہ شوہر ظہیر احمد کے اہلخانہ کے بلاک کیے گئے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کو بحال اور بینک اکاؤنٹس کو غیرمنجمد کرنے کی ہدایت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ظہیر کی جانب سے تحفظ کے لیے دائر کی گئی ایک اور درخواست کو بھی نمٹا دیا کیونکہ پولیس نے کہا کہ انہیں ہراساں نہیں کیا جائے گا بلکہ قانون کے مطابق ان سے نمٹا جائے گا۔
مزید پڑھیں: دعا زہرہ کا رشتے لینے کراچی گئے تھے، ظہیر احمد کی والدہ کا دعویٰ
ظہیر کے بھائی شبیر احمد نے بھی درخواست گزار اور خاندان کے دیگر افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد اور شناختی کارڈ اور سم کارڈ بلاک کرنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ دعا کے والد مہدی کاظمی کے وکیل کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے 3 جون کو دعا کی بازیابی تک ظہیر کے خاندان کے افراد کے شناختی کارڈ اور بینک اکاؤنٹس کو بلاک اور منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ لڑکی بازیاب ہو چکی ہے اس لیے درخواست گزار کی درخواست کو مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
تحفظ کے لیے ظہیر کی درخواست کے بارے میں بینچ نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ نے پہلے ہی ضمانت دے دی تھی جبکہ پولیس حکام اور سرکاری وکیل نے کہا کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا جس میں ہراساں کرنے کا کوئی عنصر نہیں ہے۔
بینچ نے صوبائی سیکریٹری داخلہ، پولیس، شکایت کنندہ اور دیگر مدعا علیہان کو ظہیر کی درخواست پر نوٹس جاری کیا جس میں دعا زہرہ کے مبینہ اغوا سے متعلق کیس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا دعا زہرہ کو لاہور سے کراچی منتقل کرنے کا حکم
بینچ نے پراسیکیوٹر جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا اور 18 اگست تک جواب طلب کر لیا۔
شکایت کنندہ کے وکیل نے اپنے مؤکل کی جانب سے کچھ دستاویزات جمع کرائے جو ریکارڈ پر لیے گئے تھے اور ایک کاپی درخواست گزار کے وکیل کو فراہم کی گئی۔
توہین عدالت کی درخواست چیف جسٹس کو بھیج دی گئی
دعا کے والد نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کی جس میں کچھ افراد کے خلاف یوٹیوب چینل کے ٹاک شو میں مبینہ طور پر سندھ ہائی کورٹ کے جج کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دینے پر توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ چونکہ ریمارکس اس بینچ کے ایک رکن کے خلاف تھے اس لیے اس درخواست کی سماعت کرنا یا اس پر کوئی حکم دینا مناسب نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’دعا زہرہ کی عمر15 سے 16 سال ہے‘، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ عدالت میں جمع
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا جا سکتا ہے کہ وہ یا تو اس درخواست کو کسی اور بینچ کے پاس بھیجیں یا کوئی مناسب حکم صادر کریں۔
آرڈر آج کے لیے محفوظ
جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) آفتاب احمد بگھیو نے تفتیشی افسر کی جانب سے دعا کے طبی معائنے کی اجازت کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ (آج) ہفتہ تک محفوظ کر لیا۔
تفتیشی افسر سعید رند نے درخواست میں کہا کہ نابالغ لڑکی کا طبی معائنہ کرانا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ مبینہ طور پر کم عمری کی شادی کے دوران اپنے مبینہ شوہر کے ساتھ گزارے ایام میں کسی جنسی عمل سے تو نہیں گزری۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ موجودہ عدالت نے نابالغ/متاثرہ کو شیلٹر ہوم بھیج دیا تھا اس لیے اس کے طبی معائنے کے لیے ہسپتال منتقل کرنے کے سلسلے میں اجازت درکار ہے۔
مزید پڑھیں: جب تک حکم نہ دیں دعا زہرہ کو پیش نہ کیا جائے، عدالت
لہٰذا تفتیشی افسر نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ وہ لڑکی کو شیلٹر ہوم سے طبی معائنے کے لیے طبی سہولت میں منتقل کرنے کی اجازت دے۔
ریاستی پراسیکیوٹر کے ساتھ ساتھ لڑکی کے والدین اور اس کے مبینہ شوہر کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے بھی اس درخواست کی حمایت کی۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد مجسٹریٹ نے درخواست پر حکم امتناع کے لیے 30 جولائی (آج) کو فیصلہ کیا ہے۔
پیش رفت رپورٹ جمع
اس دوران تفتیشی افسر سعید رند نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 363، 368 اور 375(v) کے تحت پیش رفت رپورٹ جمع کرائی۔
رپورٹ میں تفتیشی افسر کو بتایا گیا کہ زیر حراست ملزم شبیر احمد نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ وہ 16 اپریل کو اپنے بھائی ظہیر احمد کے ساتھ کراچی میں موجود تھا جب وہ دعا کو مبینہ طور پر اغوا کر کے پنجاب لے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس کا دعا زہرہ کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کی کراچی میں موجودگی کا دعویٰ
انہوں نے مزید کہا کہ ظہیر ایک سم کارڈ استعمال کر رہا تھا جو اس کی والدہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا جس نے وقوعہ کے روز شہر میں اپنی موجودگی ظاہر کی، انہوں نے مزید کہا کہ ملزم نے نوری آباد کے علاقے میں اپنا فون بند کر دیا تھا۔
مقدمے کی مزید سماعت یکم اگست کو پہلے سے طے ہے۔