سری لنکا کے سابق صدر سنگاپور کے بعد تھائی لینڈ جانے کیلئے کوشاں
تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سری لنکا کے سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے نے گزشتہ ماہ اپنے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کے دوران اپنے ملک سے فرار ہو کر سنگاپور میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد عارضی قیام کے لیے تھائی لینڈ میں داخلے کی درخواست کردی ہے۔
گوٹابایا راجاپکسے 70 برس میں پہلی بار سنگین معاشی بدحالی کی صورت حال میں 14 جولائی کو اس وقت فرار ہوئے تھے جب سری لنکا کے ہزاروں عوام نے ان کے صدراتی محل اور دفتر پر دھاوا بول دیا تھا۔
مزید پڑھیں: سری لنکا کی ابتر صورتحال میں امریکا کا کتنا ہاتھ ہے؟
ملک سے فرار ہونے کے بعد ریٹائرڈ فوجی افسر اپنے صدارتی منصب سے مستعفی ہوکر اپنا حکومتی دور مکمل نہ کرنے والے ریاست کے پہلے سربراہ بن گئے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق دو ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوٹابایا راجا پکسے سنگاپور سے نکل کر تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تاہم سری لنکا کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر جواب دینے کی درخواست پر ردعمل نہیں دیا۔
تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ کے ترجمان تانی سنگرت نے کہا کہ راجا پکسے کے پاس ایک سفارتی پاسپورٹ ہے، جس کے تحت انہیں 90 دنوں کے لیے ملک میں داخلے کی اجازت ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ راجا پکسے کب دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ترجمان تانی سنگرت نے کہا کہ سری لنکا کے سابق صدر کا تھائی لینڈ میں داخلہ عارضی قیام کے لیے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سری لنکا کی بحرانی صورتحال موروثی سیاست کا نتیجہ ہے؟
انہوں نے کہا کہ سری لنکا کی جانب سے ہمیں مطلع کیا گیا ہے کہ سابق صدر کا تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ اس کے بعد کسی دوسرے ملک کی طرف جائیں گے۔
گوٹابایا راجا پکسے سری لنکا چھوڑنے کے بعد سے کسی عوامی مقام پر سامنے نہیں اۤئے اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا ہے۔
اس سے قبل سنگاپور کی حکومت نے رواں ماہ کہا تھا کہ شہری ریاست نے انہیں کوئی مراعات یا استثنیٰ نہیں دیں۔
سری لنکا کے بااثر راجا پکسے خاندان کے رکن 73 سالہ گوٹابایا راجاپکسے سری لنکا کی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور بعد میں وزیر دفاع کے طور پر خدمات فرائض دیے۔
وزیر دفاع کے طور پر ان کے دور میں حکومتی افواج نے بالآخر 2009 میں تامل ٹائیگر باغیوں کو شکست دے کر خانہ جنگی کا خاتمہ کیا تھا، کچھ انسانی حقوق کے گروپ یہ الزام عائد کرنا چاہتے ہیں کہ راجا پکسے نے جو جنگی جرائم کیے ان کی تحقیقات کی جائیں جبکہ راجا پکسے پہلے سے ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:سری لنکا: اپوزیشن نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی
کئی ناقدین اور مظاہرین یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ راجا پکسے اور ان کے خاندان نے بطور صدر اپنی مدت کے دوران معیشت ٹھیک طرح سے مستحکم نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک 1948میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے بدترین مالیاتی بحران کا شکار ہوا۔
تاہم، گوٹابایا کے بڑے بھائی مہندا راجا پکسے سابق صدر اور وزیر اعظم ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی باسل راجا پکسے بھی رواں سال کے ابتدائی مہینوں تک وزیر خزانہ کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
گوٹابایا راجا پکسے کے بعد سری لنکا کا صدر بننے والے رانیل وکرما سنگھے نے مشورہ دیا کہ سابق صدر کو مستقبل قریب میں سری لنکا واپس آنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:سری لنکا نے51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے باعث ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا
وکرما سنگھے نے 31 جولائی کو وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے یقین نہیں کہ اب ان کے واپس آنے کا وقت ہے اور مجھے ان کے جلد واپس آنے کا کوئی امکان نظر نہیں اۤتا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر راجا پکسے سری لنکا واپس آ گئے تو ان کے خلاف الزامات عائد کیے جانے کی صورت میں انہیں قانون کے تحت تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔