مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیے بغیر امن نہیں ہوسکتا، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن سلگتا مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔
امریکی خبرایجنسی کو انٹرویو میں وزیراعظم شہباز شریف نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے ملک کے عوام کو خراب صورت حال کا سامنا ہے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوئے اور سیکڑوں بچوں سمیت 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی وضع کریں، وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب
پی ٹی وی سے نشر کیے گئے انٹرویو میں پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہماری غلطی نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بحران ہے، جن کے پاس وسائل اور صلاحیت ہے ان کو ہماری مدد، ریسکیو اور بحالی کی کوشش میں تعاون کے لیے آگے آنا چاہیے، جو بہت ضروری ہے۔
اے پی پی کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ اور دنیا کو بتایا ہے کہ موسمی اثرات کی وجہ سے جن سیلابی تباہ کاریوں کا پاکستان کو سامنا ہے کل یہ سانحہ کسی اور ملک کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل اسمبلی میں شریک عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے لچک دار انفراسٹرکچر اور موافقت کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں اور اس کے لیے وسائل اکٹھے کریں۔
انہوں نے کہا کہ 3 ماہ کی سیلابی تباہی سے پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے فوری ڈونر کانفرنس کے انعقاد کی استدعا کی ہے۔
روس سے گندم درآمد کرنے کی خبروں سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے فوری طور پر کہا کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، یہ ٹنوں کی بات نہیں ہے لیکن روس سے اچھے شرائط اور مناسب قیمت پر اضافی گندم درآمد کی جاسکتی ہے۔
بھارت سے گندم درآمد کرنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں قانونی معاملات ہیں اور یہ ایک مختلف موضوع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ سیلاب متاثرین کیلئے ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کرے گا، وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بھارت ایک ہمسایہ ہے، پاکستان ایک پرامن ہمسایہ کی طرح بھارت کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھا لگے یا نہیں ہم ہمیشہ کے لیے پڑوسی ہیں لیکن چند مخصوص مسائل ہیں، دہکتا مسئلہ کشمیر پرامن مذاکرات سے حل ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب تک ہم پرامن ہمسائیوں کی طرح مذاکرات کی میز پر تبادلہ خیال نہیں کریں گے تو ہم کبھی امن قائم نہیں کرپائیں گے جو شرم نا ک ہے کیونکہ اس وقت ہمیں اپنے عوام کو خوراک، روزگار، صحت کے مواقع اور تعلیم دینے کے لیے وسائل کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو بھارت اور نہ ہی پاکستان اسلحہ اور دفاعی آلات خریدنے کا متحمل ہوسکتا ہے۔
میزبان نے پوچھا کہ افغان حکمران طالبان کو تسلیم کرنے اور دیگر اقدامات کے لیے امریکا کو کیا تجویز دیں گے تو وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام کی بہبود کے لیے افغانستان میں امن اور ترقی یقینی بنانے کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے۔
مزید پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں پر عالمی ردعمل ’قابل ستائش لیکن ناکافی ہیں‘، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ توقع ہے افغانستان کی عبوری حکومت دوحہ معاہدے پر مکمل عمل کرے گی اور وہ افغانستان کے عوام کے لیے برابری کے ساتھ مواقع فراہم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سب کے لیے افغانستان کے عوام کے تمام اثاثے بحال ہونے چاہیئں، دنیا کو افغانستان کے عوام پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ درست سمت پر گامزن ہوں گے۔