پشاور: خیبر میڈیکل کالج کا شعبہ فرانزک میڈیسن فنڈز کیلئے حکومت کی منظوری کا منتظر
خیبر میڈیکل کالج کے شعبہ فرانزک میڈیسن نے گرانٹ حاصل کرنے اور استعمال کرنے اور خودکش حملوں اور بم دھماکوں سمیت دیگر کیسز میں پولیس کو درکار ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لیے محکمہ صحت سے منظوری مانگ لی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فروری 2018 میں خیبر میڈیکل کالج میں قائم ہونے والی ڈی این اے لیبارٹری نے پولیس کے لیے اب تک 650 کیسز میں 10 ہزار نمونوں پر کام کیا ہے۔
لیبارٹری نے مزید ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک اور مالیکیولر بائیولوجسٹ کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ پولیس کو دہشت گردی اور بم حملوں کے معاملات میں فوری نتائج کی ضرورت ہے۔
لیبارٹری کو پشاور پولیس لائنز حملے کے بعد جائے وقوع سے 6 جسمانی اعضا ملے جن میں سے 3 مشتبہ خودکش حملہ آور کے تھے جبکہ حملے میں جاں بحق ہونے والے 85 نمازیوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
چیئرمین فرانزک میڈیسن ڈپارٹمنٹ پروفیسر حکیم خان آفریدی نے بتایا کہ تمام ڈی این اے ٹیسٹ 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر مفت کیے گئے اور رپورٹس پولیس کے حوالے کردی گئیں، میتیں تدفین کے لیے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی جانب سے فراہم کردہ تھیلوں میں ڈالی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس کی جانب سے ’فرانزک سائنس ایجنسی (ایف سی اے) کا قیام زیرِعمل ہے، وہاں ایک ڈی این اے لیب قائم کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے پاس تربیت یافتہ عملہ موجود ہے جو اُن تمام نمونوں کی پروسیسنگ کر رہا ہے جو پہلے 25 ہزار روپے فی نمونہ کے عوض جانچ کے لیے لاہور بھیجے جارہے تھے، یہ ایک مکمل ایف سی اے کی طرز کا ایک عبوری سیٹ اَپ ہے‘۔
کے ایم سی جرائم کی جگہوں سے نمونے حاصل کرنے کے لیے پولیس کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کر رہا ہے۔
پروفیسر حکیم خان نے کہا کہ ’ہماری لیب میں ایک مائیکرو بائیولوجسٹ اور ایک سیرولوجسٹ ہے جو دوسرے عملے کے تعاون سے عالمی معیار کے مطابق کام کر رہے ہیں، دونوں نے ایف سی اے لاہور میں کام کیا ہے لیکن مزید عملہ اور مالی تعاون ہمیں بڑے پیمانے پر تحقیقات کے قابل بنا سکتا ہے‘۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کو درست تجزیے کے لیے جائے وقوع سے نمونے جمع کرنا چاہیے، بہتر یہی ہے کہ ڈی این اے لیب کسی ادارے میں ایک ہی چھت کے نیچے کام کرے، ایف سی اے پنجاب کے پاس تقریباً 70 تجزیہ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ٹیمیں ہیں، پنجاب میں ڈویژنل سطح پر ٹیمیں موجود ہیں جنہوں نے بم دھماکوں اور دیگر حملوں کے بعد علاقوں کو گھیرے میں لے کر سائنسی طریقے سے نمونے اکٹھے کیے۔
پشاور میں ایسی ٹیموں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پولیس لائنز بم دھماکے کے بعد تمام لاشوں اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا جس کے باعث وہاں بہت رش ہوگیا، لاشیں شام 4 بجے کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے کے ایم سی بھیجی گئیں۔
کے ایم سی کے ڈین پروفیسر محمود اورنگزیب نے سیکریٹری ہیلتھ شاہد اللہ خان کو لکھے گئے خط میں کہا کہ جون 2016 میں محکمہ صحت نے فرانزک میڈیسن کا شعبہ اپنے زیرانتظام لے لیا تھا، تاہم خدمات کی توسیع نے کے ایم سی کو مالی طور پر بہت زیادہ متاثر کیا جبکہ کے ایم سی کو حکومت سے محدود بجٹ ملتا ہے۔
محکمے کو 23-2022 میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن (ایم ٹی آئی) کے ذریعے حکومت سے 5 کروڑ روپے موصول ہوئے جو مارکیٹ میں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے استعمال نہ ہوسکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر میڈیکل کالج ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے اندر فرانزک میڈیسن کا شعبہ موجود ہے تاہم یہ محکمہ صحت کے زیرِانتظام ہے، لہٰذا اس کے لیے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن کے بجائے علیحدہ اکاؤنٹ کی ضرورت ہے۔