لاپتا افراد کیس: وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پشاور ہائی کورٹ میں پیش
پشاور ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کیس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو آج طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ 5 بجے تک کسی بھی وقت پیش ہوجائیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اشتیاق ابراہیم نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار نے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کو ضمانت کے باوجود جیل کے سامنے سے اٹھایا گیا، سی سی ٹی وی فوٹیجز میں بھی صاف نظر آرہا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ جب ایک کیس میں ضمانت ہوجائے تو پھر کیسے کسی کو جیل کے باہر سے گرفتار کرتے ہیں، یہ اس عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا کو بلا لیں، میں بیٹھا ہوں، علی امین گنڈا پور 5 بجے تک کسی وقت پیش ہو جائیں میں عدالت میں موجود ہوں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ اسد قیصر کیس میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ ایک کیس میں ضمانت ہونے کے بعد دوسرے درج مقدمے میں گرفتار نہیں کرسکتے، اس کیس پر 10 منٹ نہیں لگتے، وزیراعلی سے بات کریں کہ وہ آجائیں۔
ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ امن و امان کے حوالے سے اجلاس ہے اس وجہ سے وزیراعلی مصروف ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بات کرلیں، میں نے آج ہی آرڈر کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک کیس نہیں ہے، ایسے اور بھی کیسز ہے جن میں ضمانت ہونے کے بعد لوگوں کو دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ عدالت میں پیش
بعد ازاں، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور، ایڈوکیٹ جنرل، ایڈیشنل چیف سیکرٹری چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ضمانت کے باوجود گرفتاریاں ہورہی ہے، عدالتی احکامات ہے کہ ضمانت کے بعد گرفتاری نہیں ہوگی، لاپتا افراد کے خاندان ہمارے پیچھے آتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم خود ان چیزوں سے متاثر ہیں، اسطرح معامالات کے میں خود خلاف ہوں۔
چیف جسٹس یہ پہلا واقعہ نہیں بار بار ایسا ہوتا رہا ہے، عدالتی احکامات پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ فوکل پرسن دیں دے ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ مل کر بتائیں ہم قانون سازی کریں گے، ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ پبلک سیفٹی کمیشن کو ہم موثر کرہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مجبوراً اب پولیس والوں کے خلاف کاروائیاں کریں گے، سی ٹی ڈی، پولیس سب کو بیٹھا کر اس معاملے کو دیکھیں، ایڈوکیٹ جنرل جواب جمع کریں۔
عدالت نے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرکے سماعت ملتوی کردی۔