حکومت کا ریاستی اداروں کے خلاف سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے نئے طریقہ کار پر غور
حکومت سوشل میڈیا کے مواد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اپنے سائبر کرائم قوانین کو موثر بنانے کےلیے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (پیکا) 2016 میں ترمیم کا ارادہ رکھتی ہے ، جس سے اسے خامیوں کو دور کرنے کی اجازت ملے گی، خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں ریاستی اداروں کو بدنام کیا جاتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیکا قانون میں ترمیم کے حکومتی ارادے کا انکشاف کابینہ ڈویژن کے پارلیمانی سیکریٹری ساجد مہدی نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ حکومت اس قانون کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے کیونکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس سائبر کرائمز سے نمٹنے کی محدود صلاحیت ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کے بارے میں توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے وی پی این کو بلاک کرنے اور ایکس (ٹویٹر) کو بلاک کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن معاملہ زیادہ سنگین ہے اور وزیر اعظم نے پیکا 2016 میں پائی جانے والی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، ساجد مہدی کے مطابق اس ترمیم کو لانے کا ایک اور مقصد فوری انصاف ہے۔
اسی طرح کے ایک بیان میں وزیر مملکت برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام شزہ فاطمہ نے کہا تھا کہ حکومت سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تیز ٹرائل کے لیے کام کر رہی ہے۔
تاہم، اس طرح کے معاملات کو ایک مخصوص ٹریبونل کے ذریعے فوری انجام تک پہنچانے کا اقدام پہلے ہی تعطل کا شکار ہے، ٹیلی کمیونیکیشن اپیلٹ ٹریبونل کے قیام کا اعلامیہ 28 ستمبر 2024 کو شائع کیا گیا تھا لیکن وزارت قانون نے تین ماہ گزرنے کے باوجود اس کی تشکیل کا اعلامیہ جاری نہیں کیا ہے۔
اس ٹریبونل کی تجویز پی ٹی آئی نے مارچ 2020 میں پیش کی تھی اور دسمبر 2023 میں وزارت قانون و انصاف نے اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے منظور کردہ ٹیلی کام اپیلٹ ٹریبونل آرڈیننس کو باضابطہ طور پر نوٹیفائی کیا تھا تاہم پارلیمنٹ پیش نہ کیے جانے کے باعث یہ آرڈیننس ختم ہو گیا تھا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے ایک افسر نے بتایا کہ وزارت قانون پیکا 2016 کے تحت دائر مقدمات کے لیے اپیلٹ ٹربیونلز کے قیام پر کام کررہی ہے، جس تیز ٹرائل کی اجازت مل جائے گی۔
پیکا میں ترامیم کے بارے میں اہلکار نے مزید کہا کہ سائبر کرائمز قانون میں ’سب سے سنگین‘ خامی یہ تھی کہ اس میں ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن ہتک عزت کی کوئی سزا نہیں تھی۔
پیکا قانون 2016 کا سیکشن 37 جس کا عنوان ’غیر قانونی آن لائن مواد‘ ہے،کہتا ہے کہ ’اس قانون کے تحت اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اسلام کی شان یا سالمیت، پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع ، امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات، یا توہین عدالت سے متعلق یا کسی جرم کو کرنے یا اس پر اکسانے کے لیے کسی بھی معلوماتی نظام کے ذریعے پھیلائی گئی کسی معلومات تک رسائی کو روکے یا ہٹائے یا روکنے یا ہٹانے کی ہدایات جاری کرے‘۔
افسر نے مزید کہاکہ ’جو لوگ اسلام کی عظمت کے خلاف مواد کی وجہ سے ناراض ہیں وہ توہین مذہب کے قوانین (پاکستان پینل کوڈ) کے تحت مقدمات درج کراتے ہیں، لیکن ریاستی اداروں کی آن لائن ہتک عزت کی کوئی سزا نہیں ہے اور وزیر اعظم نے ایسی فتنہ انگیزی پر سزا دینے کے لیے قانون میں شقیں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے‘۔
سائبر کرائمز سے نمٹنے کے طریقوں کے بارے میں الجھن اس حقیقت سے واضح ہوتی ہے کہ حکومت نے 7 ماہ کے اندر اندر سائبر کرائم کے لیے ایک مخصوص ادارہ قائم کرنے کے اپنے فیصلے پر یوٹرن لے لیا۔
اس فیصلے نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو قانونی طور پر غیر فعال کر دیا تھا جو پیکا 2016 کے تحت خواتین اور بچوں کے خلاف ہتک عزت اور آن لائن جرائم کے معاملات کا دیکھتا ہے۔
گزشتہ ہفتے نئی باڈی کو تحلیل کر دیا گیا تھا اور ایف آئی اے کے اختیارات واپس لے لیے گئے تھے۔
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ پیکا 2016 ایک سخت قانون ہے، کیونکہ حکومت اس طرح کے اقدامات کے ذریعے مواد تخلیق کرنے والوں کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا پر’سیلف سنسرشپ’عائد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
انہوں نے ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور صحافیوں کے خلاف حالیہ مقدمات کے اندراج کا بھی حوالہ دیا۔
اسلام آباد میں قائم انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کرنے والے تھنک ٹینک بائٹس فار آل کے ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ ’لیکن ایسا لگتا ہے کہ اصل مسئلہ حکومتی کنفیوژن ہے اور موجودہ انٹرنیٹ گورننس بھی شفاف نہیں ہے‘۔
دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سینئر رکن ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ فیک نیوز تشویش کا باعث ہیں لیکن طاقت کے ذریعے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔