لاہور ہائیکورٹ: قصور ویڈیو اسکینڈل کے ملزم نے 10 سالہ سزا کیخلاف اپیل کردی
قصور ویڈیو اسکینڈل 2015 کے ملزم حسیم عامر نے 10 سال سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
ملزم حسیم عامر نے اپنے وکیل عابد کچھی کی وساطت سے اپیل دائر کی، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس 10 سال سزا سنائی۔
اپیل کنندہ کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا، عدالت 10 سال کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل منظور کرے۔
یاد رہے کہ ملزم کے خلاف 3 ایف آئی آر درج تھیں، ایک میں اسے بری کر دیا گیا تھا، ملزم کے خلاف درج ایک دوسرا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو سماعت کے لیے واپس بھیج دیا تھا۔
ٹرائل کورٹ نے کچھ عرصے قبل اس مقدمے میں 10 سال کی سزا سنائی تھی۔
واضح رہے کہ 13 دسمبر 2023 کو لاہور ہائی کورٹ نے 2015 کے قصور ویڈیو اسکینڈل کے 3 مرکزی مجرمان کی عمر قید کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔
ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے عابد حسین کچھی نے بتایا تھا کہ عدالت نے ان کے کلائنٹس کو رہا کر دیا ہے۔
وکیل نے کہا تھا کہ اس کیس کے 6 مرکزی ملزمان تھے، جن میں سے 3 کو پہلے چھوڑ دیا گیا تھا، اور باقی 3 کو آج رہا کیا گیا ہے۔
وکیل نے ملزمان کی رہائی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ویڈیو کے فرانزک آڈٹ میں حکام جیل میں سزا کاٹنے والے مجرمان کو شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
13 فروری 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور ویڈیو اسکینڈل کیس میں تین مجرمان کو عمر قید اور 3، 3 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں۔
مذکورہ مجرمان کو تھانہ گنڈا سنگھ میں درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 219/15 میں مجرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔
اس سے قبل 18 اپریل 2016 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور میں بچوں کے ساتھ بدفعلی اور زیادتی میں ملوث دو ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
خیال رہے کہ 2015 میں یہ رپورٹس منظر عام پر آئیں تھی کہ قصور سے پانچ کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی جبکہ ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی تھیں۔
رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندانوں کو ویڈیو دکھا کر بلیک میل بھی کیا جاتا تھا اور ان کے بچوں کی ویڈیو منظر عام پر نہ لانے کے لیے لاکھوں روپے بھتہ طلب کیا جاتا تھا۔