• KHI: Maghrib 6:06pm Isha 7:26pm
  • LHR: Maghrib 5:24pm Isha 6:49pm
  • ISB: Maghrib 5:25pm Isha 6:52pm
  • KHI: Maghrib 6:06pm Isha 7:26pm
  • LHR: Maghrib 5:24pm Isha 6:49pm
  • ISB: Maghrib 5:25pm Isha 6:52pm

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں پاکستانی عدلیہ کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟

موسمیاتی بحران بدتر ہونے اور انسانی بقا کو خطرات کے باعث عدالتوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھ چکی ہی، جن پر اب موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
شائع 18 جنوری 2025 01:45pm

صنعتی انقلاب آنے کے بعد انسان کی خارج کردہ گرین ہاؤس گیسز نے عالمی درجہ حرارت کو جس قدر متاثر کیا ہے اس کی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 1850ء کی دہائی میں موسم کی نگرانی کرنے کے عمل کے آغاز کے بعد سے 2023ء گرم ترین سال ریکارڈ کیا گیا جوکہ ہمارے کرہ ارض کے نظام کے عدم استحکام کی گواہی دیتا ہے۔

11 ہزار سال پہلے زمین کا توازن آئس ایج کے بعد قائم ہوا تھا جس نے انسانوں کے لیے رہائش کی بنیاد ڈالی۔ قدرت کے اس توازن کی وجہ سے انسانوں نے پہیے ایجاد کیے، بھیڑوں اور بھینسے جیسے مویشی پالے اور فصلیں اگائیں جنہوں نے انہیں ایک سویلائزیشن میں تبدیل کیا۔

لیکن اب یہ توازن خراب ہوچکا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی نے اسی ایکوسسٹم کو نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے انسان نے ترقی کی۔ ہمارا سیارہ اب اس قابل نہیں کہ ہمارے پاس موجود وسائل کے استعمال کو برداشت کرپائے اور نہ ہی یہ اس مستحکم آب و ہوا کو برقرار رکھ سکتا ہے جو ایک فعال معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ آب و ہوا کا بحران صرف حل طلب مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانوں نے زمین کے بہت سے وسائل ضرورت سے زیادہ استعمال کیے ہیں۔

موسم متاثر ہوتا ہے تو سب متاثر ہوتے ہیں

موسمیاتی بحران کے نتائج ہمیں اپنے اردگرد نظر آتے ہیں۔ اکتوبر میں اسپین کے شہر ویلنسیا میں تباہ کُن سیلاب آیا جبکہ 2024ء کے موسم گرما میں ہیٹ ویوز نے جنوبی ایشیا میں ہزاروں انسانوں کی جانیں لیں جن میں ایک ہزار عازمین حج بھی شامل تھے۔

پاکستان میں ہم روز ہی خود کو بحران کی زد میں پاتے ہیں۔ شدید بارشیں اور سیلاب، قحط سالی، ہیٹ ویوز اور زہریلی آلودہ فضا (پنجاب کی اسموگ) نے دیہی اور شہری علاقوں میں زندگی کی جدوجہد کو مشکل بنا دیا ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی بحران کو مزید خراب یہاں کی ناقص گورننس نے کیا ہے۔ 2022ء میں تاریخی سیلابوں نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا جبکہ 45 کروڑ ڈالرز فائٹرز جیٹ پر خرچ کیے گئے۔ پنجاب میں شہری آبادی گاڑیوں سے اٹھنے والے دھویں اور بھاری ٹریفک سے پریشان ہے جبکہ خاص سڑکیں بنانے پر بہت پیسہ خرچ کیا گیا تاکہ بڑے رہائشی علاقوں تک سفر کرنا آسان ہو سکے۔ اسی دوران کراچی کو جون میں خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث 500 سے زائد اموات ہوئیں جبکہ دوسری جانب سندھ میں سرکاری بیوروکریٹس اربوں روپے کی لگژری ایس یو وی خریدنے کے لیے مہنگے سودے کرنے میں مصروف تھے۔

ایک طرف جہاں بہت سے لوگ خوراک کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور دیہی علاقوں میں روزگار مشکلات کا شکار ہے وہیں دوسری جانب سندھ اور پنجاب میں لاکھوں ایکڑ اراضی کاشتکاری کے لیے بڑی کمپنیز کو دی گئی ہے۔

یہ منصوبہ پاکستان کی موسمیاتی پالیسیز، غذائی تحفظ کے منصوبوں، یا پائیدار ترقی کے اہداف کا حصہ نہیں ہے۔ موسمیاتی بحران صرف گرین ہاؤس گیسز کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہ ناقص فیصلوں اور غلط ترجیحات کی وجہ سے بدتر ہوا ہے جس سے ملک کو ماحولیاتی تباہی کے قریب دھکیل دیا گیا ہے۔

موسمیاتی انصاف کے محافظ

ایسا لگتا ہے کہ عدالتیں صرف قوانین کی تشریح کرنے اور اختلافات کو حل کرنے کے لیے موجود ہیں۔ تاہم جیسے جیسے موسمیاتی بحران بدتر ہوتا جاتا ہے اور بنیادی حقوق اور انسانی بقا کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، عدالتوں کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ اب ان پر اپنے روایتی فرائض سے آگے بڑھ کر موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

یہ تبدیلی لاہور ہائی کورٹ میں اصغر لغاری کے کیس میں واضح دکھائی دی۔ 2016ء میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور کسان اصغر لغاری نے موسمیاتی تبدیلی پر کارروائی نہ کرنے پر حکومت کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے 2014ء کے منصوبے پر عمل درآمد کرے۔

2018ء کے فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا شمار اُن سب سے بڑے چیلنجز میں ہوتا ہے جن کا ہمیں آج سامنا ہے۔ اس نے زمین کی آب و ہوا میں بڑی تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ تبدیلیاں بنیادی طور پر شدید سیلاب اور خشک سالی کا باعث بنی ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے پانی اور غذائی تحفظ کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یہ موسمیاتی رکاوٹیں معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور طبقے کو متاثر کرتی ہیں۔ عدالت نے زور دیا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ ان کا آئینی فریضہ ہے۔ عدالت نے سخت ریمارکس دیے کہ، ’یہ مطالبہ پاکستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور اس کا ازالہ صرف موسمیاتی انصاف کے ذریعے کیا جا سکتا ہے‘۔

اصغر لغاری کے فیصلے کے بعد سے پاکستانی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس (ایس سی) دونوں نے مقدمات میں موسمیاتی انصاف کے خیال کا تواتر سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت کی ناکامیوں اور ماحولیاتی نقصانات کا انسانی حقوق کے تحفظ سے گہرا تعلق ہے۔

سیمنٹ مینوفیکچرنگ کمپنیز طاقتور اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ تاہم 2019ء میں عدالت نے ان کی طاقت کو مضبوط طریقے سے چیلنج کیا۔

یہ کیس 2018ء میں اس وقت شروع ہوا جب پنجاب میں ایک سیمنٹ کمپنی چکوال اور خوشاب اضلاع میں ایک پلانٹ لگانا چاہتی تھی جبکہ ان علاقوں کو صنعتوں کے شعبے نے ’منفی زون‘ قرار دیا تھا۔ سیمنٹ کمپنی نے زوننگ کے قوانین کو چیلنج کیا اور پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے چیلنج کو مسترد کرتے ہوئے ایک اہم عنصر پر روشنی ڈالی جسے نظر انداز کیا گیا تھا اور وہ تھا آب و ہوا کی کمزوری۔

سالٹ رینج جہاں پلانٹ لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، پہلے ہی زیادہ درجہ حرارت اور زرعی پیداوار میں کمی کا سامنا کر رہی ہے۔ عدالت کے فیصلے نے نہ صرف زوننگ کے قوانین کو برقرار رکھا بلکہ ایک اہم مثال بھی قائم کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتہائی طاقتور کمپنیز کو بھی ماحولیاتی خدشات کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں۔

2021ء میں اسلام آباد کے جی 9 سیکٹر میں رہائشی پلاٹوں کو کمرشل پلاٹوں میں تبدیل کرنے سے متعلق ایک اہم کیس میں عدالت نے کہا کہ شہری منصوبہ بندی کے فیصلوں میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت، لچک اور پائیداری لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ عدالت نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرے کے پیش نظر یہ عناصر نہ صرف اہم ہیں بلکہ یہ آئینی تقاضا اور حکومت کی اہم ذمہ داری بھی ہیں۔

موسمیاتی انصاف کے ایک آئینی ضرورت اور اہم قانونی ذمہ داری کے طور پر تصور نے پاکستان میں قانونی نظام کو تبدیل کردیا ہے۔ توقع ہے کہ اس تبدیلی کے ملک کے مستقبل کے قانونی فیصلوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

کیا ان چھوٹی کوششوں کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے؟

ایک اور اہم مثال 2021ء کے آخر میں سامنے آئی جب لاہور ہائی کورٹ نے ریئل اسٹیٹ کی ترقی کے لیے دریائے راوی کے کنارے ایک لاکھ ایکڑ زرخیز زمین حاصل کرنے کے حکومتی منصوبے کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس اقدام کو غیرقانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔

218 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ’عوامی مقصد‘ کے روایتی خیال پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک نیا طریقہ اختیار کیا جو اکثر ایسے منصوبوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ عدالتوں نے عام طور پر عوامی فائدے کے لیے رہائشی زمین کے حصول کی حمایت کی ہے لیکن اس معاملے نے اس جانب توجہ دلائی کہ اگر ہاؤسنگ پروجیکٹس خوراک کے تحفظ اور موسمیاتی بحران کے سنگین ہونے کا خیال نہیں رکھتے تو کیا یہ پراجیکٹس واقعی عوام کی بھلائی کے لیے کام کر سکتے ہیں؟

فیصلے میں متنبہ کیا گیا کہ اگر فیصلہ سازی میں موسمیاتی اثرات پر غور نہیں کیا گیا تو یہ ایک خطرناک رجحان کا باعث بن سکتا ہے کہ جس میں پنجاب حکومت تمام زرعی اراضی کو رہائشی ترقیاتی منصوبوں میں تبدیل کر سکتی ہے۔ 2022ء کے اوائل میں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی اور عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا۔ معطلی کے خلاف اپیل زیر التوا ہے اور تین سال گزرنے کے بعد بھی اس کی سماعت نہیں ہوسکی ہے۔

2017ء میں پاکستان کے منتخب نمائندگان نے پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ منظور کرکے موسمیاتی بحران کی سنگینی کو تسلیم کرنے کی جانب اہم قدم اٹھایا۔ اس قانون نے دو اہم اداروں کے قیام کی بات کی۔ ایک پالیسیز بنانے کے لیے ایک ماحولیاتی کونسل کا قیام جبکہ ان پر عمل درآمد کے لیے ایک ماحولیاتی اتھارٹی کے قیام کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

اگرچہ 2019ء میں موسمیاتی کونسل قائم کی گئی تھی اور اس کا پہلا اجلاس 2022ء میں ہوا تھا لیکن وعدے کے مطابق کلائمیٹ اتھارٹی ابھی تک قائم نہیں ہوسکی ہے۔ موسمیاتی بحران کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ضروری ڈھانچے کے قیام میں تاخیر، یہ معاملہ اس مؤقف کی نفی کرتا ہے کہ جس کے تحت حکومتی نمائندگان نے موسمیاتی بحران کو ہنگامی حالات کے برابر کا درجہ دیا تھا۔

2024ء کے اوائل میں سپریم کورٹ نے موسمیاتی گورننس میں پیش رفت کے فقدان سے نمٹنے کے لیے کارروائی کی۔ ایک این جی او کی جانب سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرنے کے بعد عدالت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے جون تک وفاقی حکومت کو کلائمیٹ اتھارٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم حکمرانی کے چیلنجز تیزی سے واضح ہوئے۔ آب و ہوا سے متعلق بہت سے مسائل جیسے زراعت، آب پاشی اور شہری منصوبہ بندی، صوبائی حکومتوں کے ماتحت آتے ہیں۔ عدالت نے صوبوں کو اپنی ماحولیاتی پالیسیز پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ خیبرپختونخوا اور سندھ پہلے ہی ایکشن پلان بنا چکے تھے۔ عدالت کی عجلت نے بلوچستان اور پنجاب کو فوری طور پر اگست تک اپنی پہلی موسمیاتی پالیسیز بنانے اور ان پر عمل درآمد پر آمادہ کیا۔

یہ کیس قانونی احکامات پر انحصار کرتے ہوئے بیوروکریٹک تاخیر کے چیلنجز پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگرچہ عدالتیں کارروائی کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہیں لیکن وہ اداروں کی حمایت اور سیاسی مرضی کے بغیر ہی اتنا کچھ حاصل کرسکتی ہیں۔

جون 2024ء میں عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر سپریم کورٹ نے ایک روزہ موسمیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ علامتی طور پر ایک اہم قدم تھا جس نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں عدلیہ کی بڑھتی ہوئی شمولیت کو اجاگر کیا۔

اگرچہ یہ فیصلے پاکستان کے قانونی نظام میں موسمیاتی انصاف کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہیں؟ چند ججز کے چند ترقی پسند فیصلے صلاحیت کا مظاہرہ تو کرتے ہیں لیکن ان سے دیرپا تبدیلی نہیں آئے گی۔ شاذ و ناذر اچھے فیصلوں کے بجائے موسمیاتی انصاف کے لیے مستقل، مضبوط قانونی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

1994ء میں سپریم کورٹ نے شہلا ضیا کیس میں اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت نے انسان کے بنیادی حقوق کی تشریح کو وسعت دیتے ہوئے کہا کہ اس میں صاف اور صحت مند ماحول میں جینے کا حق بھی شامل ہے۔ بعدازاں 26ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 9 اے شامل کیا گیا جو آئین میں صاف اور صحت مند ماحول کے حق کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ ماہرین ماحولیات کی اہم فتح ہے (اس کا بہت زیادہ کریڈٹ ڈاکٹر پرویز حسن کی کاوشوں اور میراث کو جاتا ہے)۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس قانونی نظام میں موسمیاتی انصاف کی ترقی کے لیے 30 سال انتظار کرنے کا وقت ہے جبکہ اس وقت موسمیاتی بحران ہوتا جارہا ہے؟

کیا عدالتیں موسمیاتی انصاف فراہم کر سکتی ہیں؟

ایک بنیادی آئینی ذمہ داری کے طور پر موسمیاتی انصاف کا تصور طاقتور اور دلچسپ ضرور ہے جبکہ پاکستان کے آب و ہوا سے متعلق قانونی فیصلے سست اور روایتی ہیں۔ تاہم جو لوگ عدالتی نظام کو سمجھتے ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کریں گے کہ انصاف کے تصور اور قانون کو عملی طور پر لاگو کرنے کے طریقہ کار میں فرق ہے۔

عدالتوں کو قانونی حقوق کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے تو اس لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل میں بھی انصاف فراہم کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عدالتیں درپیش چیلنجز پر قابو پانے اور ان نظریات کو مکمل طور پر پورا کرنے میں کامیاب ہوں گی جو اب تک آب و ہوا سے متعلق قانونی فیصلوں میں سامنے آئے ہیں؟

اصغر لغاری کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت کا انحصار موسمیاتی انصاف پر ہے۔ پاکستان کی 2012ء کی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی اور 2022ء کا قومی موافقت کا منصوبہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ملک کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا ہے۔

اگرچہ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ دستاویزات پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز سے پوری طرح نمٹتے ہیں، وہ شہریوں کو ایک فریم ورک دے کر حکومت کو اس کے آب و ہوا کے وعدوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا مہنگا عمل ہے جس میں سرمایہ خرچ ہوگا۔

آب پاشی کے نظام کی مکمل تبدیلی، گرمی کو سنبھالنے اور کم پانی استعمال کرنے کے لیے زراعت کو تبدیل کرنے اور شہری علاقوں کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کے لیے اربوں روپے درکار ہوں گے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ یہ رقم کیسے اور کس کے ذریعے خرچ کی جاتی ہے؟ پاکستان میں عدالتیں عام طور پر حکومتی پالیسی کے فیصلوں یا فنڈز مختص کرنے کے طریقہ کار میں مداخلت نہیں کرتی ہیں اور انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ قانون سازی، ایگزیکٹو اور عدالتی اختیارات کو الگ کرنے کے اصول کی خلاف وزی ہوگی۔

پالیسی سازی میں عدم مداخلت سے متعلق موجودہ دائرہ کار عدالتوں کو اس بات کا تعین کرنے کے لیے کس حد تک اجازت دے سکتا ہے کہ آیا مخصوص حکومتی اخراجات آب و ہوا کی حساسیت کے مطابق ہیں یا نہیں؟ کیا موسمیاتی انصاف عدالتوں کے لیے ایک آلہ بن سکتا ہے جس سے وہ اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ پبلک سیکٹر کے کون سے منصوبے ماحولیاتی حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور کون سے نہیں؟ اور کیا اس طرح کی عدالتی شمولیت کو دانشمندی قرار دیا جاسکتا ہے؟

ایک ایسا بحران جو سرحدیں نہیں جانتا

جزوی طور پر قومی ریاست کی موجودہ نوعیت کو دیکھتے ہوئے ان سوالات کا جواب دینا مشکل ہے۔ ریاست کو ایک ایسی ہستی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے (یعنی صرف ریاست اپنے شہریوں کی جان یا آزادی بھی چھین سکتی ہے)۔ یہ عدالتیں ہیں جو فیصلہ کرتی ہیں کہ آیا ریاست نے اپنی طاقت کو جائز طریقے سے استعمال کیا ہے یا نہیں۔

قومی ریاست کو موسمیاتی بحران جیسے خطرات سے نمٹنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی بحران کا سامنا کرتے وقت زمین کو 200 الگ الگ ممالک میں تقسیم کرنے کا کوئی مطلب نہیں بلکہ اسے ایک ہوکر اس مسئلے کا مقابلہ کرنے یا مذاکرات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح قانونی نظام اور عدالتیں جو قومی ریاست کے ڈھانچے کے تحت تشکیل دی گئی ہیں، وہ ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے نہیں بنائے گئی ہیں۔

موسمیاتی بحران نے کس طرح انسانی تہذیب کو متاثر کیا ہے، یہ تو واضح ہے لیکن اس سے زیادہ قومی ریاست اور اس کے اداروں کی جانب سے درپیش چیلنجز سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں ناکامی واضح ہے۔

قانونی عدالتیں قانونی فیصلے کرنے کے لیے واضح اور مخصوص مسائل کو نمٹاتی ہیں۔ مقدمہ شروع کرنے کے لیے عدالت کو مدعی یا شکایت کنندگان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ مخالف فریق کو جواب دینے کے لیے بلائیں۔ ثبوت اکٹھے کیے جائیں اور سخت قوانین کے مطابق پیش کیے جائیں۔ اس منظم عمل کے ذریعے ہی انصاف کی فراہمی مؤثر طریقے سے کی جاتی ہے۔

تاہم موسمیاتی بحران کے لیے یہ روایتی قانونی ڈھانچے موزوں نہیں۔ یہ انسانیت کو فطرت کے خلاف کھڑا کرتے ہیں، ضرورت سے زیادہ قدرت کو استعمال کرنے پر احتساب مانگتے ہیں۔ اگرچہ قانونی نظام اس قسم کی ذمہ داری کے لیے نہیں بنائے جاتے ہیں لیکن پاکستان اپنے قانونی نظام کو ان پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
احمد رافع عالم

لکھاری ماحولیاتی وکیل اور پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کے رکن ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل rafay_alam@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔