حکومت کا سرحدی نگرانی بڑھانے کیلئے نئی بارڈر کنٹرول اتھارٹی کے قیام پر غور
گزشتہ سال ناکامی کے باوجود اور جاری رائٹ سائزنگ کے اقدامات کے دوران حکومت کی جانب سے نئی پاسپورٹ اور بارڈر کنٹرول اتھارٹی (پی بی سی اے) قائم کرنے پر بھرپور طریقے سے کام جاری ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق زیر غور مسودے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ا ے) کے کچھ اختیارات کو ختم کیا جائے گا، بشمول جن کا تعلق امیگریشن سے ہے۔
اس کے علاوہ امیگریشن کے ڈائریکٹوریٹ جنرل اور پاسپورٹس کی موجودہ تمام ذمہ داریوں کو ایک بہتر قیادت کے ساتھ تبدیل کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اسی طرح کی ایک اتھارٹی ’پاکستان امیگریشن، پاسپورٹس اور ویزا اتھارٹی‘ (پی آئی پی وی اے) کے قیام کی کوشش ادارے میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر پولیس افسران کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی۔
انسانی اسمگلنگ کے حالیہ واقعات اور ایران، افغانستان، بھارت سے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والے ناپسندیدہ افراد نے نہ صرف مذکورہ اقدام کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے بلکہ اسے قومی سلامتی کے لیے لاحق خطرے کے طور پر بھی سامنے لایا ہے۔
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلح افواج اور کچھ سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پڑوسی ممالک کے ساتھ ملحقہ 7 ہزار 500 کلومیٹر محیط ملکی سرحد کی حفاظت پر معمور ہونے کے باوجود تقریباً 16 سے 18 داخلی اور خارجی راستوں پر مزید مؤثر نگرانی کی ضرورت ہے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ نئی اتھارٹی کے قیام کے لیے پہلی 2 کوششوں میں زیادہ توجہ پاسپورٹ سے متعلق مسائل پر مرکوز تھی جس کی وجہ سے یہ ناکام ہوئی تاہم یہ تجویز اب قومی سلامتی کو لاحق خطرات، انسانی اور سامان کی اسمگلنگ سے متعلق ایک معاملے میں تبدیل ہوگئی ہے۔
مسودے میں دعویٰ کیا گیا کہ ایف آئی اے موجودہ وقت میں امیگریشن اور وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات سے متعلق معاملات کو دیکھ رہی ہے جس سے نااہلی، بدعنوانی، کرپشن جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’افسوس کے ساتھ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش میں بہت سارے پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‘
صورتحال کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خیال کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ضروری اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور اور شہریوں کی حفاطت کے لیے جلد سے جلد معنی خیز اقدامات کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
زیر غور تجویز کے مطابق دیگر ممالک کی طرح امیگریشن اور بارڈر سیکیورٹی کے انتظام کے لیے ایک جدید اور خود مختار اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ ایف آئی اے صرف وائٹ کالر جرائم اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات پر توجہ مرکوز کرنے تک محدود رہے۔
دریں اثنا بہتر نتائج کے لیے متعدد علاقائی ممالک بشمول بنگلہ دیش، بھارت، ایران، چین، تاجکستان، افغانستان اور ترکیہ نے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں۔
مثال کے طور پر بھارت میں امیگریشن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے بیورو آف امیگریشن قائم کیا گیا ہے جبکہ سی بی آئی وائٹ کالر جرائم کو دیکھتی ہے، اسی طرح بنگلہ دیش نے بھی امیگریشن اور پاسپورٹ کنٹرول کو اینٹی کرپشن کمیشن سے الگ کیا ہے۔
ایران میں امیگریشن اور پاسپورٹ پولیس امیگریشن کے معاملات کو دیکھتی ہے جبکہ کرائم پولیس کرپش پر قابو پاتی ہے، اسی طرح چین میں ایک علیحدہ قومی امیگریشن ایڈمنسٹریشن ہے اور ترکیہ کی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف مائیگریشن مینجمنٹ امیگریشن کی نگرانی کرتی ہے، جبکہ مالیاتی جرائم کا تحقیقاتی بورڈ مالی جرائم اور منی لانڈرنگ کے معاملات کو دیکھتا ہے۔
تجویز کے مطابق موجودہ نظام جہاں امیگریشن اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں غیر مؤثر اور بدعنوانی کا شکار ہیں، ایک علیحدہ ’پی بی سی اے‘ اتھارٹی سرحد کی بہتر حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ انسانی اسمگلنگ کو کم کرنے اور مزید انسانی المیوں کو روکنے میں کردار ادا کرے گی۔
تجاویز پر تیزی سے عمل کے لیے متعلقہ حکام ایک ماہ کے اندر قانون سازی کے ذریعے بل کی منظوری کے خواہاں ہیں۔
مسودے میں بیوروکریسی کے اندر موجود خدشات کی دوری کے لیے اتھارٹی کی سربراہی کے لیے ایک 22 گریڈ کے افسر کی تعیناتی کی تجویز زیر غور ہے جبکہ وسطی، جنوبی اور شمالی سرحدوں کی نگرانی کے لیے کم از کم 21 گریڈ کے 3 افسران کو بھی تعینات کیا جائے گا۔
تمام داخلی خارجی راستوں پر پولیس سے (کم از کم 6) گریڈ 20 کے ڈائریکٹر لیول کے افسران کی تعیناتی کا ایک سلسلہ بھی ہوگا جس میں 3 بریگیڈیئر کمانڈرز براہ راست افغانستان، ایران، چین اور بھارت کے ساتھ محلقہ سرحدوں کی نگرانی کو مؤثر بنانے کے لیے شامل ہوں گے۔
ان سرحدوں میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھی شامل ہوں گے جبکہ آپریشنل کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ڈائریکٹر کو فوجی یا انتظامی خدمات کا تجربہ رکھنے والے اہلکاروں کی مدد حاصل ہوگی۔
قانون سازی کے تقریباً 2 ماہ بعد توقع کی جارہی ہے کہ اتھارٹی 6 ماہ کے اندر مکمل طور پر فعال ہو جائے گی، جبکہ ایف آئی اے سے فورس کی منتقلی بھی 2 ماہ کے اندر مکمل ہوجائے گی۔