ٹرمپ کی دوسری مدت میں پاک۔امریکا روابط محدود رہیں گے، سابق سفارتکاروں کا اظہار تشویش
سابق پاکستانی سفارت کاروں نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران پاکستان کے ساتھ امریکی روابط محدود رہیں گے، انہوں نے بھارت اور چین کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسیوں اور اسٹریٹجک اختلافات کا حوالہ دیا، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مسلسل تناؤ کا شکار کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز (سی آئی ایس ایس) کی جانب سے ’ٹرمپ 2.0: پاکستان کے لیے مضمرات‘ کے عنوان سے منعقدہ گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز سابق سفارتکاروں نے بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون اور امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی کے تناظر میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات پر تبادلہ خیال کیا۔
پینل میں سابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی شامل تھے، اشرف جہانگیر قاضی، جنہوں نے امریکا، بھارت اور چین میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے، چین میں سابق سفیر مسعود خالد اور صنوبر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ بھی مقررین میں شامل تھے۔
ماہرین نے واشنگٹن کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ اسلام آباد کی آزادانہ تذویراتی اہمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے بنیادی طور پر بھارت اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے عینک سے دیکھتا ہے۔
اس گول میز کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا اسٹریٹجک محل وقوع اسے علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست میں اہم بناتا ہے، واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان خیر سگالی کو برقرار رکھنا مستقبل کے تعلقات کے لیے ضروری ہے۔
تاہم، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مشترکہ اسٹریٹجک ترجیحات کی کمی سابقہ اتحادیوں کے مابین ایک اہم طویل المدتی شراکت داری کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
کانفرنس کے شرکا نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے امریکا اور چین، دونوں کے ساتھ الگ الگ تعلقات ہیں اور دونوں ہی منفرد حرکیات اور ترجیحات پر مبنی ہیں۔
انہوں نے چین اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے بارے میں نقطہ نظر کو تشکیل دینے کے واشنگٹن کے رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نقطہ نظر عالمی میدان میں پاکستان کی آزادانہ قدر کو نظر انداز کرتا ہے۔
کانفرنس کے دوران بحر ہند و بحرالکاہل میں چین کے مقابلے میں بھارت کے لیے امریکی حمایت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
سفارتکاروں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح نئی دہلی نے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے، جدید مغربی فوجی سازوسامان حاصل کرنے اور واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے چین سے مبینہ خطرے کا تزویراتی فائدہ اٹھایا ہے۔
انہوں نے ’کواڈ الائنس‘ میں بھارت کی شمولیت اور کامکاسا (COMCASA)، ایل ای ایم او اے (LEMOA) اور بی ای سی اے (BECA) جیسے بنیادی معاہدوں میں اس کی شرکت کی طرف اشارہ کیا، جس نے امریکا کے ساتھ اس کی اسٹریٹجک شراکت داری کو تقویت دی ہے۔
مقررین نے جوہری تحفظ اور سلامتی کے سخت معیارات پر عمل کرنے کے باوجود پاکستان کے خلاف مسلسل پابندیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان اقدامات کو امتیازی قرار دیا۔
انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگرچہ امریکا، بھارت کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک صف بندی کو مزید گہرا کر رہا ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے تحت پاکستان کے ساتھ بامعنی تعلقات واشنگٹن کی علاقائی پالیسیوں میں تبدیلی کے بغیر آگے بڑھنے کا امکان نہیں ہے۔