جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر کو لاپتا افراد کمیشن کا نیا سربراہ مقرر کردیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس (ر) فقیر محمد کھوکھر کو لاپتا افراد کمیشن کا نیا سربراہ مقرر کردیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) ملک جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ کو بتایا کہ سابق جج فقیر محمد کھوکھر کو جسٹس (ر) جاوید اقبال کی جگہ کمیشن کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ نے لاپتا افراد کے دیرینہ مسئلے پر سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سابق چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو 2011 میں لاپتا افراد کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ حکومت چاہتی تو لاپتا افراد کا دیرینہ مسئلہ اب تک حل ہوجاتا۔
لاپتا افراد کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تھا کہ شہریوں کے جبری طور پر لاپتا کیے جانے کے غیر قانونی عمل کا حل صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دوران سماعت مؤقف اختیار کیا کہ حکومت لاپتا افراد کمیشن کے مؤثر طریقے سے کام نہ کرنے کی صورت میں ایک نئی قانون سازی کے ذریعے لاپتا افراد کے لیے ایک ٹربیونل قائم کرے گی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی نے استفسار کیا کہ مذکورہ قانون سازی کا عمل کتنے عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی نے اس پر پہلے سے ہی کام شروع کردیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ لاپتا افراد کے حوالے سے قانون پہلے سے ہی موجود ہے، کسی کو لاپتا کرنا ایک جرم ہے، اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا ٹرائل کیا جائے، اگر جرم نہیں کیا تو اسے چھوڑ دیا جائے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو ایک ہی بار حل کرنا چاہتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کمیشن نے اب تک کتنے لاپتا افراد کو بازیاب کرایا؟ کیا یہ لوگ کبھی بتائیں گے کہ انہیں کہاں رکھا گیا تھا؟ جس پر لاپتا افراد کمیشن کے رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ بازیاب افراد اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتے کہ انہیں کہاں رکھا گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے عدالت میں لاپتا افراد کے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے جلد از جلد قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ پر قانون سازی کے لیے زور نہیں ڈال سکتے لیکن صرف امید کرسکتے ہیں کہ حکومت اس معاملے پر ایک جامع فیصلہ کرے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 3 جنوری 2024 کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں وفاقی حکومت کو تحریری طور پر حلف نامہ پیش کرنے کا حکم دیا تھا، اس حکم میں کہا گیا تھا کہ ماورائے قانون کسی بھی شہری کو نہیں اٹھایا جائے گا۔