• KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:43pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:02pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:03pm
  • KHI: Zuhr 12:46pm Asr 4:43pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 4:02pm
  • ISB: Zuhr 12:22pm Asr 4:03pm

بادی النظر میں ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، جسٹس منصور علی شاہ

شائع January 23, 2025
جسٹس منصور علی شاہ — فائل فوٹو
جسٹس منصور علی شاہ — فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے تھے لیکن چاہتے ہیں کہ معاملہ فل کورٹ میں جائے۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت 4 عدالتی معاونین نے عدالت کی معاونت کی، اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی عدالت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔

عدالت میں عدالتی معاون حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا؟ حامد خان نے مؤقف اپنایا انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال پر معاونت کریں۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے، ماضی میں بینچز تشکیل دینے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استدلال کیا کیا دنیا کے کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے بینچ ایگزیکٹو بناتا ہے؟ حامد خان صاحب آپ کے ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہو؟ حامد خان نے مؤقف اختیار کیا ایسا کہیں نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا، جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوور لیپنگ نہیں ہے؟ حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی پاور کو نظر انداز نہیں کر سکتی، یہ الٹی میٹ پاور ہے جو آئین نے دی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ حامد خان نے کہا کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے، پارلیمنٹ قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کر سکتی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 2 اے کے مطابق کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ 2 اے کے مطابق کمیٹی جوڈیشل آرڈر کونظر انداز کر کے بینچ سے کیس واپس لے سکتی ہے؟ حامد خان نے کہا ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی؟کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے؟

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کا سیکشن 2اے آرٹیکل 191 اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں۔

حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاون احسن بھون روسٹرم پر آئے، احسن بھون نے مؤقف اختیار کیا ماضی میں کچھ کچھ فیصلے ہوئے جہاں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کو غیر مؤثر کیا گیا۔

تھوڑا اور دھکا لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے، جسٹس منصور علی شاہ

احسن بھون نے مؤقف اپنایا اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے جس پر احسن بھون نے کہا دھکا تو ہم نے لگایا تھا۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے آئین یہ کہتا ہے کہ جوڈیشل آرڈر کو جوڈیشل آرڈر ہی ختم کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے آئین کی کمانڈ یہ ہے کہ قانون کی تشریح کرنا کمیٹی کا حق ہے، آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر بینچ کیس سن رہا ہے تو کمیٹی کو خیال آئے کہ یہ بینچ کیا کر رہا ہے اور کیس واپس لے لیا جائے؟ احسن بھون نے مؤقف اختیار کیا اگر کمیٹی اس پر اعتراض کرتی ہے تو عدالت معاملہ ریفر کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے انتظامی کمیٹی کیس سنتے ہوئے اسے واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟

احسن بھون نے کہا اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر مؤثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے مؤقف اپنایا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو 11،11 ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔

عدالت میں خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سول اورکریمنل کیسز میں آئینی سوالات ریگولر بینچ دیکھ سکتا ہے، آرٹیکل 185 (3) پر مگر دائرہ اختیار کا معاملہ آجاتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے 63 اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بینچ میں فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لے کر کمیٹی نے آئینی بینچ میں لگا دیا۔

خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بینچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بینچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے، اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے درست ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے؟ اگر ہمارا 16 جنوری کا آرڈر غلط ہے تو کیا وہ جوڈیشل فورم پر ہی چیلنج نہیں ہو گا؟

جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا آئین میں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ماننا لازم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی پر یہ آئینی شق لاگو نہیں؟

کمیٹی اگر فیصلے واپس لینے لگ جائے تو عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے ہاتھ آجائے گی، جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلے کمیٹی واپس لینے لگ جائے تو عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے ہاتھ آجائے گی۔

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں آئینی بینچ بنانے سے متعلق کچھ نہیں، 191 اے میں آئینی بینچ بنانے کا اختیار ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتاہے 191 اے کے تمام کیسز آئینی بینچ میں مقرر ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا جوڈیشل آرڈر کے خلاف کس نے فیصلہ کیا؟ کیا اعلیٰ عدلیہ نے کیا یا ایپیلٹ فورم نے؟ انتظامیہ اگر سمجھتی ہے کہ جوڈیشل آرڈر ٹھیک نہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتی، جوڈیشل آرڈر غلط ہے تو جوڈیشل فورم پر کیا چیلنج نہیں ہوگا؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس کیا بینچ تشکیل دینے کا معاملہ آفیسر کی طرف سے آیا ؟

انہوں نے مزید کہا کہ کیس مقرر بینچ نے نہیں کیا، کمیٹی کے ہاتھ میں بینچ بنانا تھا، اگر کمیٹی سے غلطی سے کیس لگ گیا ہے تو واپس تو نہیں جاسکتا، ابھی تو ہم نے کچھ نہیں کیا، صرف سوال کیا ہے، اس کیس سے ہٹ کر سوال ہے ہمارے پاس 4 ہزار کیسز ہیں وہ کہاں جائیں گے؟ 5 ہزار کیسز کا فیصلہ آئینی بینچ کرے گا یا کمیٹی، کمیٹی کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار کدھر سے آگیا؟

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا قانون میں لکھا ہے کونسا مقدمہ کہاں چلے گا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 185/3 کے کیس اگر کوئی ٹھوس قانونی سوالات آجائے، کیا ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی اجازت نہیں؟ کیس ہمارے سامنے کمیٹی نے لگایا، اس طرح سے کیس واپس ہونے لگے تو یہ عدلیہ کے آزادی کے منافی ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ کمیٹی نے آرٹیکل 191اے کا معاملہ سمجھ کر آئینی بینچ کو بھجوادیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے اگر ہم کوئی فیصلہ دیتے تو نظر ثانی میں بڑا بینچ بنا دیتے۔

خواجہ حارث نے کہا میرے حساب سے کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کمیٹی تو پھر ایسا کیس بھی واپس لے لی گی جو ہم سب سن سکتے ہوں گے، کیا توہین عدالت کا معاملہ فل کورٹ کے سامنے بھیجوایا جاسکتا ہے؟

خواجہ حارث نے کہا توہین عدالت کا معاملہ فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے کمیٹی کو بھیجا جاسکتا ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے صرف اس لیے پوچھ رہے کہ کل کوئی نہ کہے کہ ہم نے اختیارات سے تجاوز کیا، ہم اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرتے۔

کمیٹی بھی سر آنکھوں پر، رولز بھی سر آنکھوں پر، جسٹس عقیل عباسی

معاون وکیل احسن بھون نے دوبارہ دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا قانونی معاملات بینچز اور عدالتیں ہی حل کرتی ہیں؟ کمیٹی بھی سر آنکھوں پر، رولز بھی سر آنکھوں پر۔

احسن بھون نے کہا کہ جسٹس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھیں، پارلیمنٹ کا اختیار 2 تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق میں قانون سازی کرنا ہے، کمیٹی بینچ کے سامنے ٹھیک کیسز مقرر کرتی ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے کون سی کمیٹی؟ 2 اے والی یا 2 رکنی کمیٹی؟ احسن بھون نے جواب دیا دونوں کمیٹیاں قانون کے تحت بنائی گئی ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چیف جسٹس پھر کیا کریں؟ یعنی آپ کہہ رہےکہ کمیٹی نے ٹھیک کیا؟ مسئلہ کمیٹی کے سامنے رکھیں؟

یہاں لوگ ادارے کو تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، احسن بھون

احسن بھون نے مؤقف اپنایا فل کورٹ جوڈیشل آرڈر کے تحت نہیں ہوسکتا ورنہ فساد ہو جائےگا، یہاں ادارے کو تباہ کرنے میں لوگ لگے ہوئے، ہر کوئی اپنی پارلیمنٹ، اپنے ججز، اپنی سپریم کورٹ چاہتا ہے جس پر جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے اور اپنی مرضی کے فیصلے بھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہم ادارے کو بچانے کے لیے ہی لگے ہوئے ہیں۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے نذر عباس نے تو اپنے جواب میں کہا مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، ہمیں کوئی شوق نہیں ہے توہین عدالت کا، بتائیں حل کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا توہین عدالت کی کارروائی محدود ہوتی ہے، اگر عدالت سے توہین عدالت کی کارروائی سے باہر نکلنا ہے تو معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بجھوایا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا اگر فل کورٹ سنے تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا آپ کے پاس اختیار سماعت محدود ہے، عدالت کو یہ معاملہ کمیٹی کو بھیجنا چاہیے، اگر عدالت آرٹیکل 184 یا اپیل سن رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے چیف جسٹس پاکستان صاحب کی مرضی ہے فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں، ہم چاہتے ہیں معاملہ حل کی طرف جائے، ایک بار ہی حل نکال لینا چاہیے، ہمارے پاس اختیار ہے کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتے تھے، لیکن ہم چاہتے ہیں معاملہ فل کورٹ کو بھیجا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

کارٹون

کارٹون : 5 فروری 2025
کارٹون : 4 فروری 2025