• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:38pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:56pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:57pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:38pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:56pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:57pm

ڈالر کی پاکستان منتقلی کیلئے چینلز کی عدم موجودگی سے روپے پر دباؤ بڑھنے کا خدشہ

شائع January 26, 2025
پاکستان کو رواں مالی سال قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 26 ارب 10 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں
—فائل فوٹو: ڈان
پاکستان کو رواں مالی سال قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 26 ارب 10 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں —فائل فوٹو: ڈان

کرنسی مارکیٹ کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ڈالر کی آمد کو راغب کرنے کے لیے چینلز کی عدم موجودگی روپے پر دباؤ ڈال سکتی ہے، کیوں کہ حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے زیادہ شرح سود پر قرض لینے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے کے بعد بڑی ایشیائی اور یورپی کرنسیوں کے مقابلے میں امریکی ڈالر مضبوط ہو رہا ہے۔

اس سے روپے کی قدر میں مزید کمی آسکتی ہے، جو ایک سال سے زائد عرصے سے ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے، جس کی وجہ کچھ سخت اقدامات ہیں، جن میں اسمگلنگ کو محدود کرنا اور اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن شامل ہے۔

بعض تجارتی برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ ملک کو کم قیمتوں پر آرڈرز کو راغب کرنے کے لیے علاقائی منڈیوں میں مسابقت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، جس سے روپے کی قدر میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔

کرنسی ماہرین روپے کی قدر میں ممکنہ کمی کی متعدد وجوہات پیش کرتے ہیں، جن میں صدر ٹرمپ کی جانب سے چین اور یورپ کے لیے درآمدی محصولات کے اعلان کے بعد ڈالر کی مضبوطی، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے خراب ذخائر اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ اخراج اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے منافع کی واپسی شامل ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع کا اخراج مالی سال 25 کی پہلی ششماہی کے دوران ملک کو موصول ہونے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے تقریباً برابر تھا، جولائی تا دسمبر ایف ڈی آئی اور منافع کی واپسی بالترتیب 1.3 ارب ڈالر اور 1.2 ارب ڈالر رہی۔

ایک بینکر نے کہا کہ مالیاتی منڈیوں کا اعتماد لرز رہا ہے، کیوں کہ ملک قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کمرشل نرخوں پر قرض لے رہا ہے، حکومت نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے 2 بینکوں سے 6 سے 7 فیصد شرح سود پر ایک ارب ڈالر قرض لینے کا اعلان کیا ہے، یہ شرح تبادلہ کے لیے ’اچھا‘ نہیں لگتا۔

انہوں نے کہا کہ چین نے ابھی تک قرضوں کی واپسی کا اعلان نہیں کیا ہے، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈالر کے ذخائر میں مزید ایک سال کی توسیع کے باوجود ملک کو اب بھی مزید تجارتی قرضوں کی ضرورت ہے، جس سے روپے کی مضبوطی پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچے گا۔

پاکستان کو مالی سال 25 میں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں مجموعی طور پر 26 ارب 10 کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں، جن میں سے کچھ قرض جزوی طور پر ادا کیا گیا، اور رول اوور کیا گیا ہے، لیکن پھر بھی اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے۔

کرنسی کے ماہر اور ٹریس مارک کے سی ای او فیصل ممسا نے کہا کہ کرنسی تاجروں کا خیال ہے کہ علاقائی کرنسیوں، خاص طور پر بھارتی روپے (آئی این آر) کے کمزور ہونے سے پاکستانی کرنسی پر دباؤ پڑے گا، ساتھ ہی پیر کی شام کو شرح سود میں کمی بھی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اہم رائے یہ ہے کہ روپے کے نرخوں میں معمولی ایڈجسٹمنٹ ہوگی، لیکن وہ اب بھی آنے والے ہفتے میں 280 روپے کی سطح سے نچلی سطح پر رہے گا۔

خراب معاشی نمو اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے باوجود پاکستان میں شرح مبادلہ ایک سال سے زائد عرصے سے مستحکم ہے، واحد اچھی بات یہ ہے کہ مالی سال 25 کے پہلے 6 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدات میں 60 ارب ڈالر تک اضافے کا اعلان کیا، لیکن رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں برآمدات میں کمی آسکتی ہے، ٹیکسٹائل مصنوعات کے ایک برآمد کنندہ عامر عزیز نے کہا کہ چوتھی بڑی معیشت ہونے کے باوجود اکتوبر 2024 کے بعد سے بھارت میں 2.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

نومبر 2024 کے بعد سے آئی این آر 1.6 فیصد کمزور ہوا ہے، جس کی وجہ امریکی ڈالر کی مضبوطی ہے، اپریل سے ستمبر کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 0.47 فیصد کمی ہوئی، تاہم اکتوبر 2024 کے بعد سے یہ کمی بڑھ کر 2.2 فیصد ہوگئی۔

فیصل ممسا نے کہا کہ اگلے ہفتے امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ کا اجلاس اہم ہوگا، یورپی مرکزی بینک (ای سی بی) اور بینک آف کینیڈا کے برعکس، جنہوں نے شرح سود میں کمی کی ہے۔

امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ چاہتا ہے کہ ایک ’وقفہ‘ لیں، اگر اس اجلاس میں شرح سود میں کمی نہ کی گئی تو ڈالر مضبوط نظر آئے گا۔

کارٹون

کارٹون : 29 جنوری 2025
کارٹون : 28 جنوری 2025