• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:39pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:57pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:58pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:39pm
  • LHR: Zuhr 12:16pm Asr 3:57pm
  • ISB: Zuhr 12:21pm Asr 3:58pm

ڈاکٹر-فارما گٹھ جوڑ: زائد اور غیر ضروری ادویات کے نسخے تجویز کرنے کا بڑھتا رجحان

ہم جب ڈاکٹرز کے پاس علاج کی غرض سے جاتے ہیں تو توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ہمارے مرض کے مطابق درست ادویات تجویز کریں گے لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر-فارما گٹھ جوڑ کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔
شائع January 28, 2025

55 سالہ نسیم* کی صحت اچھی تھی۔ ان کے جوڑوں میں بعض اوقات درد اٹھتا تھا جس کے لیے وہ باقاعدگی سے ورزش کرتی تھیں اور باقی اس کے علاوہ سب ٹھیک تھا۔ پھر ایک دن کچھ ایسا ہوا جس سے وہ ڈر گئیں۔ ایک سرد شام میں ٹہلتے ہوئے انہیں اپنے گھٹنوں میں شدید درد اٹھتا محسوس ہوا۔ یہ درد اتنا شدید تھا کہ وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گئیں اور کچھ منٹ کے لیے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر بعد انہیں یہ درد کم ہوتا محسوس ہوا۔

اس رات انہیں فکر ہوئی اور ہسپتالوں کے خوف کے باوجود انہوں نے ایک قریبی کلینک سے معائنہ کروانے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ نسیم کو فریکچر یا موچ نہیں آئی لیکن ساتھ ہی Ibandronic acid کے استعمال کی تجویز دی جو ہڈیوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ وٹامن ڈی اور کیلشیم سپلیمنٹس بھی تجویز کیے۔ نسیم سے کہا گیا کہ یہ مہنگی ادویات وہ صرف کلینک کے ساتھ واقع فارمیسی سے ہی خرید سکتی ہیں۔

ڈاکٹر سے معائنے کے بعد نسیم کو اطمینان ہوا اور وہ کئی ماہ تک ان کی تجویز کردہ ادویات لیتی رہیں۔ لیکن کبھی کبھار ان کے گھٹنوں میں اٹھنے والا درد مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ 5 سال بعد ایک فیملی تقریب میں نسیم کو کسی اور ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کا مشورہ دیا گیا۔ ایکسرے اور چند ٹیسٹ کے بعد آرتھوپیڈسٹ (ہڈیوں کے ڈاکٹر) نے اخذ کیا کہ ان کی ہڈیوں میں کوئی خرابی نہیں بلکہ ان کے جوتے مسئلے کی وجہ ہیں۔ روزمرہ کے کاموں کے لیے وہ جو جوتا پہنتی تھیں، اس سے ان کے جوڑوں پر دباؤ پیدا ہوتا تھا، نتیجتاً ان کے گھٹنوں میں درد ہوتا تھا۔

نسیم نے 5 برس تک جو ادویات لیں، وہ غیرضروری تھیں۔ انہیں ان ادویات کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

ہانیہ* کی کہانی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ جب وہ 15 سال کی تھیں تو ایک شام وہ اسکول کے گراؤنڈ میں بےہوش ہوگئیں۔ کچھ دن بعد مرگی کی تشخیص ہوئی۔ متعدد ڈاکٹرز سے رجوع کرنے کے بعد انہیں ایک ڈاکٹر کے حوالے سے ایسا لگا کہ یہ بہترین معالج ہیں۔

تاہم کچھ سالوں بعد ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ ہانیہ کو ولسنز مرض لاحق ہے۔ یہ ایک جینیاتی مرض ہے جو جسم کو اضافی تانبے کے اخراج سے روکتا ہے جس کی وجہ سے تانبا جگر، دماغ، آنکھوں اور دیگر اندرونی اعضا میں جمع ہوجاتا ہے۔ کوئی ٹیسٹ نہیں کیے گئے۔ ہانیہ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ڈاکٹر نے یہ تشخیص جسمانی معائنے کے بعد کی۔

یہ دعویٰ کرنے کے اگلے لمحے ڈاکٹر کے لمبے نسخے میں مزید ادویات کا اضافہ ہوا جس میں زنک کی گولیاں بھی شامل تھیں۔ یوں دن بھر میں لی جانے والی ادویات کی تعداد 8 تک پہنچ گئی۔ ہانیہ نے کہا، ’وہ بہترین ڈاکٹر تھے اس لیے ہم نے کبھی کسی دوسرے ڈاکٹر کی رائے طلب نہیں کی‘۔

ہانیہ جو اب 25 سال کی ہیں، 15 سال کی عمر سے مسلسل ادویات لیتی رہیں جب تک ان کے ڈاکٹر کا انتقال نہیں ہوگیا اور ان کی فیملی کو کسی اور نیورولوجسٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب انہیں پتا چلا کہ انہیں زنک کی گولیوں کی کبھی بھی ضرورت نہیں تھی۔ پہلے والے ڈاکٹر کی تجویز پر ہانیہ دن میں دو زنک کی گولیاں کھاتی تھیں۔

  ڈاکٹر نے انہیں ادویات تجویز کیں جن کی انہیں ضرورت بھی نہیں تھی
ڈاکٹر نے انہیں ادویات تجویز کیں جن کی انہیں ضرورت بھی نہیں تھی

نسیم اور ہانیہ کی کہانی میں یہ بات مشترک ہے کہ ان دونوں کو وہ ادویات تجویز کی گئیں جن کی انہیں ضرورت نہیں تھی۔ جب آپ کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کی غرض سے جاتے ہیں تو آپ کو گمان ہوتا ہے کہ آپ کا علاج تجربے اور طبی تحقیق کی بنیاد پر ہوگا۔ یقیناً آپ یہ نہیں سوچتے کہ اگر آپ کو دوا کی ضرورت نہیں تھی تو پھر ڈاکٹر آپ کو اس کی تجویز بھلا کیوں کرے گا؟

تاہم تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مریضوں کا غیر ضروری علاج کروانا افسوسناک حد تک عام ہوچکا ہے۔ اگرچہ کچھ واقعات ایسے ہوسکتے ہیں جن میں ڈاکٹر سے بھول ہوگئی ہو لیکن زیادہ تر واقعات میں ڈاکٹرز اچھی طرح صورت حال سے واقف ہوتے ہیں اور ایسے علاج بتاتے ہیں جوکہ ان کے لیے منافع بخش ہوتے ہیں۔

طبی دنیا میں اسے Incentive-linked prescribing یا آئی ایل پی کہتے ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہوتی ہے کہ جب طبی امداد فراہم کرنے والے کارکنان دوا ساز کمپنیز سے کچھ ادویات تجویز کرنے کے بدلے انعامات قبول کرتے ہیں جیسے کہ پیسے یا فنڈڈ ٹرپس وغیرہ۔

ڈاکٹر-فارما گٹھ جوڑ

آئی ایل پی ویسے تو ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن کم آمدنی والے متوسط ممالک میں یہ نظام ترقی یافتہ ممالک کی نسبت زیادہ نفیس انداز میں متحرک ہے۔ برٹش میڈیکل جرنل گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق، پاکستان میں نہ صرف وسیع پیمانے پر یہ بددیانتی انجام دی جاتی ہے بلکہ یہ انتہائی خطرناک حد تک عام ہے۔

کراچی میں کی گئی اس تحقیق میں 419 شرکا کا اندراج کیا گیا، جو تمام کے تمام نجی ڈاکٹرز تھے اور شہر کے چھ اضلاع میں منافع بخش اور پرائمری ہیلتھ کیئر کلینکس میں کام کر رہے تھے۔ ان 419 افراد کو تحقیق کے دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور انہیں مداخلت یا کنٹرول گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔

پہلے والے گروپ کے شرکا، جس میں تقریباً 210 ڈاکٹرز تھے، نے اخلاقی طور پر ادویات یا نسخے تجویز کرنے کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کی جہاں ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنے کو اہمیت دی گئی۔

دوسری جانب کنٹرول گروپ میں شامل ڈاکٹرز نے ’پلیسیبو‘ پیشہ ورانہ ترقی کے سیمینار میں شرکت کی۔ اس سیمینار میں صحت کی بنیادی دیکھ بھال، خون کے امراض کے لیے ضوابط اور بہترین طریقوں کے اشتراک پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن اس سیمینار میں اخلاقی طور پر نسخے یا ادویات تجویز کرنے کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔

اس سرگرمی کے 3 ماہ بعد محققین نے ڈیٹا اکٹھا کرنے والوں کے تعاون سے شرکا کو ایک فرضی دوا ساز فرنچائز کمپنی میں مطالعے کے نمائندگان کے طور پر بھیجا جہاں ڈاکٹرز کو ملنے والی مراعات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں جو دوا ساز کمپنی کی تجویز کردہ ادویات کو فروغ دیتے ہیں۔

مطالعے کے نتائج انتہائی تشویش ناک تھے۔ 40 فیصد سے زائد ڈاکٹرز نے دوا ساز کمپنی سے مراعات کی لالچ میں ان کی ادویات کو فروغ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ حتیٰ کہ وہ شرکا جنہوں نے اخلاقی طور پر دوا تجویز کرنے سے متعلق سیمینار میں شرکت کی تھی، وہ بھی دوا ساز کمپنیز کے نمائندگان کے ساتھ معاہدے طے کرنے پر آمادہ ہوگئے جبکہ انہوں نے ادویات کے معیار کے حوالے سے کوئی ثبوت بھی طلب نہیں کیے۔

تحقیق میں سامنے آیا، ’مراعات لینے سے انکار کرنے والے ڈاکٹرز کی اکثریت نے ہماری فرضی دوا ساز کمپنیز کے بجائے، اپنی متعلقہ دیگر دوا ساز کمپنیز سے آئی ایل پی معاہدوں پر بات چیت کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے اخلاقی اقدار کی بنا پر مراعات لینے سے انکار نہیں کیا تھا‘۔

اس تحقیق نے مزید روشنی ڈالی کہ ڈاکٹرز نے فارماسیوٹیکل سیلز کے نمائندوں کے ساتھ معاہدے کرنے میں ایک فعال کردار ادا کیا اور ان ڈاکٹرز کے طریقوں کو تبدیل کرنا مشکل تھا۔

تحقیق کے مصنفین میں شامل ڈاکٹر سعدیہ شکور نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ آئی ایل پی پاکستان میں ایک عام پریکٹس بن چکی ہے۔ یہ اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے لگی ہے کہ وہ ڈاکٹرز جو اس گٹھ جوڑ کا حصہ بننے سے انکاری ہوتے ہیں، وہ ایک غیرمعمولی تصور کیے جاتے ہیں کیونکہ ان کی تعداد کم ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ ایک پوشیدہ طریقہ کار ہے جو ہر عام آنکھ باآسانی نہیں دیکھ سکتی‘۔

تاہم اس کے نتائج دور رس ہوتے ہیں بالخصوص مریضوں پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

’صحت عامہ کا حقیقی مسئلہ‘

جیسا کہ تحقیق میں نشاندہی کی گئی کہ دوا ساز کمپنیز سے معاہدے، صحت عامہ کے کارکنان کی ذمہ داریوں کے متصادم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹرز کو اپنے پیشہ ورانہ فیصلوں میں مریض کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے لیکن ان معاہدوں سے مالی فائدہ کی خاطر ان کے فیصلے غیر منصفانہ ہوسکتے ہیں۔

مطالعے میں سامنے آیا کہ دوا ساز کمپنیوں کی ترغیبی ادویات کے نسخوں کی وجہ سے اکثر ڈاکٹرز زیادہ مہنگی اور غیر ضروری ادویات تجویز کرتے ہیں۔ نتیجتاً مریضوں کے اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ مریضوں کے لیے مضر اثرات کا خطرہ بھی بڑھاتا ہے جبکہ صحت عامہ کے نظام پر ان کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔

مثال کے طور پر لیاری کے رہائشی محمد نوید تین بچوں کے والد ہیں۔ جب بھی ان کے بچوں میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے تو انہیں ادویات کا لمبا پرچہ پکڑا دیا جاتا ہے جس پر ان کے ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ محمد نوید اکثر اوقات ادویات لینے کے لیے بچوں کے تعلیمی فنڈز سے رقم خرچ کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں، ’ہم جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں وہ ہمیں اینٹی بائیوٹکس لکھ دیتے ہیں تو اب ہم گھریلو علاج کرنے لگے ہیں۔ یہ کچھ وقت لیتے ہیں لیکن مؤثر ثابت ہوتے ہیں‘۔

سابق وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے وضاحت کی کہ اینٹی بائیوٹکس دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام اور غیر ضروری طور پر تجویز کردہ ادویات میں سے ایک ہے۔ کثرت سے اس کے استعمال نے انہیں کم مؤثر بنا دیا ہے اور بیکٹیریا مزاحمت کے قابل ہوچکے ہیں۔ بیکٹیریا، وائرس، فنگس اور پیراسائٹس اینٹی مائکروبیل ادویات کے اثرات کے خلاف ادویات مزاحم ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انفیکشن کا علاج مشکل ہوتا ہے اور بیماریاں پھیلنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی، ’آسان الفاظ میں وہ ادویات جو ہمارے عام انفیکشنز کے علاج کے لیے دی جاتی ہیں، غیر مؤثر ہوچکی ہیں اور ان کے غیرمؤثر ہونے کی وجہ ان کا حد سے زیادہ استعمال ہے۔ آئی ایل پی کلچر کی وجہ سے ڈاکٹرز وہ تمام ادویات تجویز کردیتے ہیں جو ان کی فارمیسی پر میسر ہوتی ہیں‘۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ اینٹی بایوٹکس کے غیر ضروری اور غیر مناسب فروغ کی وجہ سے یہ اینٹی بایوٹکس اب بیکٹریا اور انفیکشنز کے خلاف مزاحم ہوچکی ہیں۔ اس صورت حال نے ’صحت عامہ کے ایک حقیقی مسئلے‘ کو جنم دیا ہے کیونکہ نئی اینٹی بائیوٹکس بنائی نہیں گئیں جبکہ دستیاب پرانی ادویات اپنا اثر کھو چکی ہیں’۔

انہوں نے مثال دی کہ اگر ایک شخص جسے ہائی بلڈ پریشر کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن پھر بھی اسے غیر ضروری طور پر کم بلڈ پریشر کی دوا تجویز کی گئی تو اس دوا کے استعمال سے متعلقہ شخص کا نارمل بلڈ پریشر لیول بھی کم ہوگا۔

انہوں نے زور دیا کہ ’ادویات دو دھاری تلوار کی مانند ہوتی ہیں۔ اگر انہیں مرض کے علامات کے مطابق درست تجویز کیا جائے تو یہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں لیکن اگر ان کا غلط استعمال کیا جائے تو یہ آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ہر دوا کے فارمولے میں نقصان دہ کمیکلز شامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں انتہائی احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

’لیکن ڈاکٹرز مراعات کی خاطر غیرضروری ادویات کا نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ فارمیسی والے بھاری رقم وصول کرتے ہیں جس کا منافع ڈاکٹر کو بھی ملتا ہے‘۔

ڈاکٹرز کی یہ غلط روش صرف اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے تک محدود نہیں ہے۔

ایم بی بی ایس ڈگری ہولڈر ذوالفقار* جو شعبہ طب میں خدمات انجام نہیں دے رہے، نے ڈان ڈاٹ کام کو ایسی مثالوں کے بارے میں بتایا کہ جہاں معالجین مریضوں کو مخصوص دوا ساز کمپنی کے ہیپاٹائٹس سی کے انجیکشنز تجویز کرتے پائے گئے جس کے نتیجے میں انہیں دیگر مراعات کے ساتھ مفت غیرملکی دورے بھی تحائف کی صورت میں ملے۔ ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں مریضوں کو ڈاکٹرز نے مخصوص لیب سے سی ٹی اسکین، ایم آر آئی یا ایکسرے کروانے کو کہا حالانکہ ان کی ضرورت بھی نہیں تھی۔

وہ یاد کرکے بتاتے ہیں کہ ایک اور واقعے میں ان کی بھانجی کو ڈرماٹولوجسٹ نے ایکنی کے علاج کے لیے 15 ہزار کی ادویات کا نسخہ دیا۔ ’دو دن بعد ہمیں پتا چلا کہ اسے ایکنی نہیں بلکہ خسرہ تھا‘۔

فارمولا دودھ کی انڈسٹری بھی اس کی بڑی مثال ہے جہاں یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ شیرخوار کے لیے صرف ماں کا دودھ کافی نہیں جبکہ ڈاکٹرز، نرسز، دائی اور ماہرین اطفال بھی اس پروپیگنڈے کا پرچار کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، صحت کے کارکنان کو راغب کرنے اور ان سے سفارشات کروانے کے لیے کفالت، تربیتی سرگرمیاں اور تحائف بشمول نقد رقم یا کمیشن کی پیش کش کی جاتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان جہاں غربت عروج پر ہے اور شرح خواندگی انتہائی کم ہے، وہاں معصوم مریض اور ان کے اہلخانہ، ڈاکٹرز کے نسخوں کو معتبر جانتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ علاج کا بہترین ذریعہ ہیں۔

لیکن ڈاکٹرز یہ معاہدے کیوں کرتے ہیں؟

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ ’ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹرز اس معاشرے کا اتنا ہی حصہ ہیں جتنا کہ دیگر لوگ ہیں، ایک ایسا معاشرہ جو کرپشن کی وبا کا شکار ہے‘۔

انہوں نے کہا، ’دوسری بات یہ کہ لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جو ڈاکٹر موٹرسائیکل پر آتا ہے یا پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتا ہے، وہ اس معالج کی نسبت کم تعلیم یافتہ ہے جو اپنی مہنگی گاڑیوں میں دو اسسٹنٹس کے ہمراہ آتے ہیں‘۔

اس معاشی دباؤ کی زد میں آکر ڈاکٹرز رشوت لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

  ڈاکٹرز کے دواساز کمپنیز سے معاہدوں کی بڑی وجہ ان کی کم آمدنی ہے
ڈاکٹرز کے دواساز کمپنیز سے معاہدوں کی بڑی وجہ ان کی کم آمدنی ہے

ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ جنرل فزیشنز کا آئی ایل پی میں ملوث ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ان گنت مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں تو وہ دوا ساز کمپنیز کا ہدف بن جاتے ہیں۔ امراضِ جلد اور دندان سازی سے متعلق طبی مصنوعات پر بھی یہی لاگو ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کے علاج زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔

’دواساز کمپنیز سے قلم یا نوٹ پیڈ لینا قابلِ قبول ہے لیکن ایسی مراعات ہر گز قبول نہیں جن سے ڈاکٹر کی شفافیت اور ساکھ پر سوالات کھڑے ہوں‘۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ وہ طبی ماہرین جو دواساز کمپنیز سے معاہدے کرتے ہیں وہ نہ صرف زیادہ پیسے کماتے ہیں بلکہ دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ غیرملکی دوروں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر سعدیہ شکور بھی اس موقف سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں ڈاکٹرز کو اپنی آمدنی سے زیادہ کمانا ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرے میں اپنا ایک مقام بنانا چاہتے ہیں۔ ’آئی ایل پی ناکام معیشت کی ایک علامت ہے جہاں ڈاکٹرز کی آمدنی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں‘۔

ڈاکٹر سعدیہ نے نقطہ اٹھایا کہ مطالعے کے دوران متعدد ڈاکٹرز نے رشوت لینے کی یہی وجہ بتائی۔ لیکن اسی دوران بہت سے ڈاکٹرز رشوت لینے کو غیر اخلاقی نہیں سجھتے اور وہ اسے معقول قرار دینے کے لیے جواز پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹرز جواز دیتے ہیں کہ ’ہم تو صرف دوا ساز کمپنیز سے مراعات لے رہے ہیں لیکن ہم مریضوں کو درست ادویات تجویز کررہے ہیں، کمپنی ہمیں صرف ادویات فروغ دینے کے لیے منافع دے رہی ہے‘۔ ڈاکٹرز کا اس غیراخلاقی فعل کے لیے جواز فراہم کرنا، معاملے کو مزید بگاڑ دیتا ہے کیونکہ وہ مریضوں کو غیرضروری اور زیادہ ادویات تجویز کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں‘۔

ڈاکٹر سعدیہ شکور نے کہا، ’ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جو ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے مریضوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جو زیادہ اینٹی بایوٹکس یا ملٹی وٹامن، مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو درست قرار دینے کے لیے جواز بھی پیش کرتے ہیں۔ معاہدے کرنے میں آخر غلط کیا ہے؟ یہ ایک مضبوط معاشرتی جواز بن چکا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ رجحان بڑے پیمانے پر اتنا عام ہوچکا ہے کہ دوا ساز کمپنیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ مراعات کا وعدہ کیے بغیر سائنسی شواہد پر مبنی مؤثر ادویات کو بھی فروغ نہیں دے سکتیں۔

رشوت اور بھتہ خوری

سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر احسن قوی صدیقی نے اس المیے کی سنگینی سے متعلق بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیز زیادہ منافع کے لیے ڈاکٹرز کو رشوت دینے میں ملوث پائی جاتی ہیں۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا، ’تاریخی اعتبار سے پہلے پاکستان کی دوا ساز صنعت میں صرف ملٹی نیشنل کمپنیز فعال تھیں۔ انہیں کسی مسابقت کا سامنا نہیں تھا اور انہوں نے تمام اخلاقی ضوابط کی پیروی کرتے ہوئے اُن تمام ڈاکٹرز کو تعلیمی مدد فراہم کوتے ہوئے ادویات کی مارکیٹنگ کے طریقوں کا آغاز کیا جن کے پاس اس وقت اتنے مواقع میسر نہیں تھے‘۔

اُس وقت مارکیٹ میں مسابقت نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز کے پاس ادویات تجویز کرنے کے زیادہ آپشنز میسر نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیز اور مینوفیکچررز مارکیٹ میں آئے۔ موجودہ وقت میں پاکستان میں تقریباً 700 سے زائد فارماسیوٹیکل فرمز رجسٹرڈ ہیں۔

  مقامی دواساز کمپنیز میں اضافے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے مراعات وصول کرنے کا رجحان پیدا ہوا
مقامی دواساز کمپنیز میں اضافے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے مراعات وصول کرنے کا رجحان پیدا ہوا

صحت عامہ کی خدمات کو فروغ دینے والے نیٹ ورک پیشنٹس ناٹ پرافٹس کے مطابق، پاکستان میں دوا سازی کی صنعت 2 ارب ڈالرز سے زیادہ کی سیلز کرتی ہے جس میں اکثریت ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے بجائے مقامی اور گھریلو کمپنیز کی ہے۔ فروخت کا دو تہائی حصہ تجویز کردہ ادویات پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے تقریباً 90 فیصد ادویات ان کے برانڈز کے ناموں کے ساتھ تجویز کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر احسن قوی صدیقی نے کہا، ’مقامی کمپنیز کے وجود میں آنے کے بعد سے صحت عامہ کے کارکنان میں آئی ایل پی کا رجحان پیدا ہوا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے پاکستان میں دوا سازی کی صنعت میں قیمتیں زیرِکنٹرول تھیں اور ادویات کی قیمتوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔ لیکن مقامی کمپنیز کے وجود میں آنے کے بعد سے انہوں نے مسابقت کے لیے ڈاکٹرز کو ادویات فروغ دینے کے بدلے میں مراعات کی پیش کش کرنے کا آغاز کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا، ’اس کے بعد سے ڈاکٹرز کے طریقہ علاج میں تبدیلی آئی۔۔ پہلے میں دوا ساز کمپنیز کو رشوت دینے والی صنعت قرار دیتا تھا لیکن آج میں شعبہ طب کی کمیونٹی کو بھتہ خور قرار دیتا ہوں کیونکہ وہ ان کمپنیز سے بھتہ وصول کررہے ہیں‘۔

ڈاکٹر احسن قوی صدیقی نے دعویٰ کیا کہ ان مقامی فرمز کی اکثریت انٹرنیشنل فیڈریشن آف فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز اینڈ ایسوسی ایشنز (یہ ادارہ جو عالمی صحت کو بہتر بنانے والی پالیسیز اور طریقوں کی وکالت کرتا ہے) کی جانب سے قائم کردہ اخلاقی ضوابط پر شاذ و ناذر ہی عمل کرتے ہیں۔

ضابطے کی شق 1-19 کے تحت، ’طبی شعبے سے وابستہ کارکنان کو سیلز فروغ دینے کے مقاصد کے تحت کوئی تحفہ یا مالی لالچ نہیں دیا جائے گا یا پیش کش نہیں کی جائے گی‘۔ اس میں مزید کہا گیا کہ ادویات کو فروغ دینے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تحائف جو خواہ کسی خاص طبی مصنوعات سے متعلق ہوں یا عام افادیت سے متعلق، صحت عامہ کے کارکنان کو تقسیم کرنے کی اجازت ہے لیکن وہ بھی صرف اس صورت میں جب تحفہ زیادہ مہنگا نہ ہو اور دوا یا فارمیسی کے ضوابط کے مطابق ہوں۔

ڈاکٹر احسن قوی صدیقی نے مزید وضاحت کی کہ ملک میں ادویات کی مارکیٹ کا ایک تیسرا رخ بھی ہے جو دوا سازی کی فرنچائزز سے متعلق ہے۔ یہ کاروبار کا ایک ایسا ماڈل ہے جس میں فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز، کاروبار کے مالک کو خصوصی مارکیٹنگ اور فروخت کے حقوق فراہم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر احسن نے کہا، ’یہ فرنچائزز صرف رقم لینے اور ادویات تجویز کرنے کے تصور پر عمل پیرا ہیں‘۔ یہ فرنچائزز خاص طور پر جنرل فزیشنز اور پرائیویٹ کلینک کو ہدف بناتی ہیں۔

ڈاکٹر احسن قوی صدیقی فرنچائزز اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیز کی تیزی سے ترقی کے لیے ڈاکٹرز کو محتسب ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا، ’جو رشوت لیتے ہیں، وہ رشوت دینے والوں سے زیادہ قصور وار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ایک ایسا پیشہ ہے جس کے پاس انکار کرنے کی طاقت موجود ہے لیکن وہ اپنی لالچ کی وجہ سے رشوت لینے سے انکار نہیں کرتے‘۔

گزشتہ سال فروری میں نگران حکومت کی جانب سے غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن نے اضافی خدشات کو جنم دیا۔ اس فیصلے سے کمپنیوں کو ان ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کی اجازت دی گئی جو قومی سطح پر ضروری ادویات کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق، اس کی وجہ سے ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مارکیٹنگ بجٹ میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ مسابقت میں بھی تیزی آئے گی۔ اسی طرح دوا ساز کمپنیز کی جانب سے ادویات کی مارکیٹنگ میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔

مسئلے کا حل کیا ہے؟

جہاں آئی ایل پی کا مسئلہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے وہیں پاکستان میں اس مسئلے کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کی ایک وجہ قوانین کا فقدان ہے جبکہ اس حوالے سے جو قوانین موجود ہیں، ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر سعدیہ شکور کہتی ہیں، ’طبی ماہرین میں یہ عام فہم ہے کہ اگر ان کا کلینک کسی ایک جگہ سے بند کردیا جائے گا تو وہ باآسانی اسے کسی دوسرے علاقے میں کلینک کھول سکتے ہیں‘۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے بیان کردہ کچھ ضابطہ اخلاق ہیں۔ ڈریپ کے ایتھیکل مارکیٹنگ ٹو ہیلتھ کیئر پروفیشنلز رولز ڈاکٹروں کو ادویات تجویز کرنے پر براہِ راست مراعات دینے جیسے طریقوں پر پابندی عائد کرتے ہیں جبکہ اس کے لیے فارماسیوٹیکل کمپنیز اور صحت عامہ سے وابستہ افراد کے درمیان شفاف تعلق کی ضرورت ہے۔

2021ء میں ڈریپ نے تمام صوبائی حکومتوں کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سرکاری اور نجی صحت عامہ کی سہولیات میں ڈاکٹرز صرف ادویات کے ناموں کے ساتھ نسخے تجویز دیں۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی تھی جب شہریوں کی جانب سے سرکاری اور نجی شعبوں میں ڈاکٹروں کی جانب سے مخصوص برانڈز کی ادویات کے نسخے دیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

تاہم ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ اس اقدام سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکی کیونکہ برانڈ کے ساتھ ادویات تجویز کرنے کا رواج اب بھی شعبہ طب میں موجود ہے۔

انہوں نے کہا، ’اگر میں اپنے مریضوں کو پیراسیٹامول تجویز کرتا ہوں تو وہ جب میڈیکل اسٹور پر جائیں گے تو انہیں ایک خاص برانڈ کا پراسیٹامول فروخت کیا جائے گا کیونکہ فارمیسی بھی کمیشن سے چلتی ہے‘۔ مزید کہا کہ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ میڈیکل اسٹورز تجویز کردہ ادویات کے علاوہ دوسری ادویات فروخت کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا ’فارمولا مماثل‘ ہے۔ عام طور پر مریض میڈیکل اسٹورز کی باتوں میں آجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈاکٹر کے پاس واپس جانے کا وقت نہیں ہوتا۔

  ڈاکٹرز کو برینڈز کے نام کے ساتھ ادویات تجویز کرنے کی ممانعت ہوتی ہے لیکن شعبہ طب میں یہ رجحان پایا جاتا ہے
ڈاکٹرز کو برینڈز کے نام کے ساتھ ادویات تجویز کرنے کی ممانعت ہوتی ہے لیکن شعبہ طب میں یہ رجحان پایا جاتا ہے

ڈریپ کی طرح پی ایم ڈی سی کے بھی میڈیکل اور ڈینٹل معالجین کے لیے ضابطہ اخلاق موجود ہیں جو دوا ساز کمپنیز سے مراعات لینے کی سخت ممانعت کرتے ہیں۔ اس ادارے کے پاس ڈاکٹرز کو سزا دینے کا اختیار بھی موجود ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق ان پر عمل درآمد کا نظام کمزور ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بھی ’ادویات کے فروغ کے لیے اخلاقی معیار‘ نامی ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ڈبلیو ایچ او چاہتا ہے کہ یہ ضوابط معیار بن جائیں لیکن یہ ضابطہ اخلاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ یعنی اگر آپ ان پر عمل درآمد کریں گے تو اچھی بات ہے مگر آپ پیروی کرنے کے پابند نہیں۔

ان قوانین اور ضوابط کے باوجود ایک اہم سوال برقرار ہے اور وہ ہے کہ یہ ریگولیٹری ادارے بھی کمپنیوں کی جانب سے ترغیب کردہ ڈاکٹرز کے نسخوں کی روک تھام کیسے کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر ظفر مرزا نے سوال اٹھایا، ’لوگ احتساب سے بچ جاتے ہیں کیونکہ ہم یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ ڈاکٹر نے جو ادویات کا نسخہ لکھ کر دیا ہے، وہ ادویات کی فروغ کے مقصد سے لکھا گیا ہے، اور یہ درست نسخہ نہیں؟ جبکہ ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جو ڈاکٹرز کے اس طریقہ علاج کا تعین کرنے میں مؤثر ثابت ہوسکے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر احسن قوی صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ’ان ریگولیٹری اداروں کے لیے ہر کیلنک کا دورہ کرنا اور یہ جانچنا مشکل ہے کہ صحت عامہ کے کارکنان ضابطہ اخلاق کی پیروی کررہے ہیں یا نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اس حوالے سے دیگر ممالک سے سبق حاصل کرسکتا ہے جن میں امریکا نمایاں ہے جس نے مسئلے سے نمٹنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا۔

انہوں نے فزیشنز پیمنٹس سن شائن ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت امریکا میں لائف سائنس مینوفیکچررز کی جانب سے ڈاکٹرز اور ٹیچنگ ہسپتالوں کو ادائیگیوں اور رقم کی منتقلی کو رپورٹ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

ڈاکٹر احسن نے کہا، ’لیکن پھر بات ڈاکٹرز کی اقدار اور اخلاقیات پر آجاتی ہے۔ جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز جیسے حکومت، ڈاکٹرز، ہسپتال، مریض، خاندان اور وہ لوگ جو فارماسیوٹیکل کمپنیز کی جانب سے مارکیٹنگ میں شامل ہوتے ہیں، اپنے کردار کے مطابق ذمہ داری محسوس نہیں کرتے اور اخلاقی اقدار کو بروئے کار نہیں لاتے، تب تک اس مسئلے سے نمٹا نہیں جا سکتا‘۔

بدعنوانی کے الزامات کے غبار میں اکثر ایک اور مسئلہ نظرانداز کردیا جاتا ہے اور وہ ہے تعلیم کی کمی اور بنیادی عوامی بہبود کی کمی کا احساس۔

ڈاکٹر سعدیہ شکور نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ڈاکٹرز کے ساتھ بات چیت میں بہت سے ڈاکٹرز نے بتایا کہ کسی نے انہیں پریکٹس کے ضابطہ اخلاق سے متعلق نہیں سکھایا۔ اور جیسا کہ مطالعے کے نتائج سے ظاہر ہوا، اب ہم جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں تعلیم دینے سے بھی زیادہ فرق پیدا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا، ’یہ ہمیں پہلے کرلینا چاہیے تھا۔ جب کوئی معالج میڈیکل کالج میں ہو یا شاید وہ اسکول میں ہو تو اسے اخلاقیات اور عوامی بہبود کا درس دیا جانا چاہیے۔ ہمارا معاشرہ کیسے کام کرتا ہے، اس میں بنیادی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ باحیثیت معاشرہ ہمیں بہتر ضابطہ اخلاق کی ضرورت ہے اور پھر ہمیں ڈاکٹرز سے بھی اسی طرح کی توقع کرنی چاہیے‘۔

ڈاکٹر سعدیہ شکور نے مزید کہا کہ پی ایم ڈی سی، ڈریپ اور ہیلتھ کیئر کمیشنز کو مل کر ایک باہمی پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں ڈاکٹرز کے رویوں کا بھی احاطہ کیا جانا چاہیے۔ ’پھر ہمیں یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اسے ایک وسیع منظرنامے پر دیکھنے کی ضرورت ہے‘۔

اختتام میں سعدیہ شکور نے کہا کہ دوا ساز کمپنیز اور ان کے نمائندگان ایک حقیقت ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹرز کی آمدنی کم ہے جبکہ غریب کی حالت کی حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں۔


*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


ہیڈر: اے آئی سے تیار کردہ


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مظہرہ امین

لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔