• KHI: Asr 4:43pm Maghrib 6:19pm
  • LHR: Asr 4:02pm Maghrib 5:40pm
  • ISB: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm
  • KHI: Asr 4:43pm Maghrib 6:19pm
  • LHR: Asr 4:02pm Maghrib 5:40pm
  • ISB: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm

پیپلز پارٹی نے مرکز، پنجاب میں اپنے تحفظات براہ راست وزیراعظم تک پہنچا دیے

شائع February 4, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

وزیر اعظم شہباز شریف نے چولستان کینال منصوبے پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ’اقتدار کی تقسیم‘ پر پارٹی کی بدگمانیوں کو دور کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پیشرفت سے وابستہ ایک ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شازیہ مری نے سینئر پارلیمنٹرینز سید خورشید شاہ اور اعجاز جاکھرانی کے ہمراہ وزیر اعظم کو ان نہروں کے منصوبے کے فائدے اور نقصانات پر بریفنگ دی جس میں دریائے سندھ سے پانی نکالا جائے گا، اور جس سے سندھ کے عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔

وزیر اعظم سے گفتگو کو ’خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات‘ قرار دینے کے باوجود پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم شہباز کو باریک بینی سے نامکمل وعدے یاد دلائے اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ کس طرح ان کی پارٹی کو اہم فیصلوں میں سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے وفد نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی طرف سے مسلسل ’نظر انداز‘ کرنے کے برتاؤ بھی اظہار ناراضی کیا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی رہائش گاہ پر ہونے والی یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب سیاسی شخصیات قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ کو ان کے بیٹے کی شادی پر مبارکباد دینے کے لیے جمع تھیں۔

پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے ڈان کو بتایا کہ ’یہ کوئی تناؤ والی گفتگو نہیں تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ماحول بہت خوشگوار تھا، کیونکہ ہم سب وہاں اپنے پارلیمانی اور پارٹی ساتھی کی خوشی میں شریک تھے۔ تاہم ہم نے وزیراعظم کے ساتھ چند نکات اٹھائے اور انہوں نے تحمل سے سنا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے پچھلی شکایات اور یقین دہانیوں کے باوجود پیش رفت سست رہی ہے۔ پھر بھی، اس حالیہ ملاقات نے ہماری امیدیں تازہ کردی ہیں، ہم نے اپنے تحفظات پیش کیے اور وزیراعظم نے توجہ سے سنا۔‘

شازیہ مری نے چھ نئی انڈس کینال کے حوالے سے پارٹی کے تحفظات اور اعتراضات کو خاص طور پر اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی پارٹنر کے نکات پر توجہ دینے کے بجائے پیپلز پارٹی کے جذبات کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ’سخت بیانات‘ کے ذریعے مسترد کردیا گیا۔

ان کا اشارہ وزیر منصوبہ بندی و مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کی طرف تھا، جنہوں نے گزشتہ ماہ پیپلز پارٹی کے خدشات کو ’بے بنیاد بحث‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

شازیہ مری نے کہا کہ ’ایک طرف ہماری بات نہیں سنی جا رہی اور دوسری طرف آپ کی پارٹی کے سینئر اراکین ہمارے تحفظات کو بے بنیاد بحث قرار دیتے ہوئے سخت ریمارکس دیتے ہیں، اس سے پارٹی کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔‘

اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار کی تقسیم کے تنازع کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن مسلم لیگ (ن) کے اندر بہت سے لوگوں کو شک ہے کہ وہ اپنی بھتیجی کو پیپلز پارٹی کو اس سے کہیں زیادہ جگہ دینے پر راضی کر سکیں گے جتنی وہ پہلے سے دے چکی ہیں۔

ان کے وسیع تر پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کو صدر، سینیٹ کے چیئرمین، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کی گورنر شپ جیسے آئینی عہدے دیے گئے۔

ان سے جنوبی پنجاب کے ان حلقوں میں اپنی پسند کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور ضلعی پولیس افسران کے تقرر میں ان پُٹ لینے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا جہاں انہوں نے فروری 2024 کے انتخابات میں کچھ نشستیں جیتی تھیں۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی طور پر پارٹی کے زیر کنٹرول اضلاع میں افسران کے تقرر جیسے معاملات پر ان پُٹ دینے کی کوششوں کو پنجاب میں مریم نواز انتظامیہ کی طرف سے لاتعلقی کا سامنا کرنا پڑا۔

پنجاب کابینہ کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ ’ضلعی عہدیداروں کے تقرر پر [پیپلز پارٹی کی] رائے کو ماننے کی کیا بات کریں، وزیراعلیٰ نے اعلیٰ عہدیداروں کے تقرر و تبادلوں کا فیصلہ کرتے وقت اپنی کابینہ کے ارکان کو بھی شامل نہیں کیا۔‘

کابینہ کے رکن نے کہا کہ ’جب اعلیٰ افسران کے تقرر و تبادلوں سے متعلق فیصلے کرنے کی بات آتی ہے تو مریم بی بی صرف چند اعلیٰ بیوروکریٹس پر انحصار کر رہی ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اتحادی پارٹنر کی رائے کو اس عمل میں ایڈجسٹ کرنے کی زیادہ گنجائش نظر نہیں آتی۔‘

اس رویے سے پریشان ہو کر پیپلز پارٹی عوامی اور نجی طور پر بالخصوص گورنر پنجاب سلیم حیدر اور دیگر صوبائی رہنماؤں کے ذریعے وزیراعلیٰ مریم نواز کے رویے کے بارے میں شکایت کرتی رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے شہباز شریف حکومت کی حمایت واپس لینے کی دھمکیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے اعتماد کے ساتھ کہا کہ پارٹی کے پاس صرف ’ہوبسن کا انتخاب‘ ہے، یعنی موجودہ حکومت کی حمایت کرنا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’[وہ] اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر نئے انتخابات ہوتے ہیں تو یہاں تک کہ سندھ میں بھی ان کے اسٹیک مزید کم ہوجائیں گے۔‘

کارٹون

کارٹون : 5 فروری 2025
کارٹون : 4 فروری 2025