کیا پاکستان 2035ء تک اپنے فضائی معیار کو محفوظ بنا پائے گا؟
بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، بھارت اور پاکستان تک پھیلے ہوئے ہند گنگا کے میدانوں اور ہمالیہ کے دامن میں فضائی آلودگی کی سطح بدترین ہوچکی ہے جس کی بنا پر اگر اسے خطے کو دنیا میں فضائی آلودگی کا گڑھ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اس خطے میں 2 ارب سے زائد لوگ بستے ہیں جو روزانہ ایسی فضا میں سانس لیتے ہیں جو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق غیر محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ دنیا کے 10 آلودہ ترین شہروں میں سے 9 شہر جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔
گاڑیوں سے گیسز کا اخراج، فصلوں کی باقیات جلانا، فیکٹریوں اور پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں اور گائے کے گوبر یا لکڑی سے کھانا پکانے کا دھواں، یہ تمام عناصر فضائی آلودگی میں اضافے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ آلودگی ہر سال لاکھوں افراد کی قبلِ از وقت موت کا باعث بنتی ہے۔
فضائی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے پارٹیکل میٹر 2.5 کو سمجھنا ہوگا جس کی وجہ سے آلودگی ہوتی ہے۔ یہ ذرات صرف 2.5 مائیکرو میٹر چوڑے ہوتے ہیں جوکہ انسانی بال سے بھی زیادہ پتلے ہوتے ہیں اور انہیں صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنے سائز کے باوجود وہ طویل فاصلے طے کرسکتے ہیں اور سرحدیں عبور کرسکتے ہیں۔
جنوبی ایشیا خطے میں دہلی 98.6 مائیکروگرام پارٹیکل میٹر 2.5 فی کیوبک میٹر کے سالانہ ارتکاز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جبکہ لاہور 80 مائیکروگرام پارٹیکل میٹر 2.5 فی کیوبک میٹر کے ساتھ دوسرے، ڈھاکا 70.2 کے ساتھ تیسرے جبکہ کٹھمنڈو 49.95 مائیکروگرام پارٹیکل میٹر 2.5 فی کیوبک میٹر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ ان تمام شہروں کا فضائی معیار عالمی ادارہ صحت کی جانب سے محفوظ معیار 5.0 پارٹیکل میٹر 2.5 فی کیوبک میٹر سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ناروے، فن لینڈ اور سویڈن جیسے ممالک عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس 2024ء کی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی ادارہ صحت کے ضوابط کی پاسداری کی گئی تو جنوبی ایشیا میں رہنے والے ہر شخص کی زندگی میں اوسط ساڑھے 3 سال کا اضافہ ہوگا۔
اگرچہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے متعین کردہ حد تک پہنچنا مشکل ہے لیکن جنوبی ایشیا 2035ء تک پارٹیکل میٹر 2.5 کی سالانہ اوسط حد کو 35 مائیکروگرام کیوبک میٹر سے نیچے رکھنے کا اعادہ رکھتا ہے۔
علی معین ملک کے خیال میں پاکستان 2035ء تک صاف ہوا کے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ وہ اسٹارٹ اپ ’ ezBike’ کے شریک بانی ہیں، کہتے ہیں کہ برقی گاڑیوں کو عام بنا کر اس ہدف کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان تقریباً 3 کروڑ پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلز کو دوبارہ تیار کر کے انہیں الیکٹرانک بائیکس (ای بائیکس) میں تبدیل کرسکتا ہے تو پاکستان کے شہروں میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی سطح کو 50 فیصد سے زیادہ کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ’ٹرانسپورٹ کے شعبے میں موٹر سائیکلز سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا ذریعہ ہیں‘۔
پاکستان بھر میں 40 ہزار سے زیادہ ای بائیکس کے ساتھ، علی معین پُراعتماد ہیں کہ حکومت کی معاونت کے ساتھ یہ تعداد اگلے سال تک دگنی ہوسکتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے ای بائیکس ایک اختراعی حل کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ یہ خطہ حیرت انگیز طور پر خیالات سے بھرپور ہے لیکن بدقسمتی سے ان خیالات یا مجوزہ حل کو حکومت کی حمایت نہیں مل پاتی۔
مثال کے طور پر دہلی میں ایک جوڑے نے (جو بالترتیب 80 اور 70 برس کا ہندسہ عبور کرچکے ہیں) نے اپنے گھر میں سبز نخلستان بنایا ہے جہاں 15 ہزار پودے ہیں جنہیں مچھلیوں کے ٹینک سے پانی کی فراہمی ہوتی ہے۔ ان کے گھر میں ایئر کوالیٹی انڈیکس 15 ہے۔ ساتھ ساتھ آن لائن کورسز کے ذریعے وہ دیگر لوگوں کو ماحول دوست طرزِ زندگی اپنانے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں۔
اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے ممالک اور شہری ایک دوسرے سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان مغربی بنگال میں اٹھائے گئے اقدام سے سیکھ سکتا ہے جہاں ماحول دوست نقل وحمل کو فروغ دینے کے لیے ایک کروڑ 20 لاکھ طلبہ کو سائیکل دی گئیں۔ یا پاکستان بنگلہ دیش سے سیکھ سکتا ہے جس نے آلودگی پھیلانے والے اینٹوں کے بھٹے کو ٹریک کرکے ان کی نگرانی کی۔
اسی طرح دیگر ممالک پاکستان کی یاسمین لاری کے ’بیئرفٹ سوشل آرکیٹیکٹ‘ پروگرام سے سیکھ سکتے ہیں۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون معمار ہیں جنہوں نے دیہاتیوں کو ماحول دوست مصنوعات بنانے کی تربیت دی ہے تاکہ وہ ان مصنوعات کو آپس میں فروخت کرسکیں۔ گزشتہ سال ان کی تنظیم نے ملاوی کے دیہاتیوں کی ایک ٹیم کو تربیت دی جو اپنے ملک میں بھی اسی ماڈل پر عمل درآمد کے خواہشمند تھے۔
یاسمین لاری نے کہا، ’سب سے پہلے انہوں نے دھویں سے پاک مٹی کے چولہے بنانے کا انتخاب کیا‘۔ اگرچہ خطے میں پر جگہ توانائی بچانے والے مٹی کے چولہے بنائے جارہے ہیں لیکن یاسمین لاری کے تیار کردہ چولہوں کے کناروں میں گیلی مٹی کے ساتھ چونا ہوتا ہے جو فضا میں موجود کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جتنا زیادہ ہم فضائی آلودگی کو سمجھیں گے اتنا ہمیں یہ ادراک ہوگا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک تنہا اس مسئلے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ممالک کو مختلف تنظیموں کے ذریعے باہمی تعاون کرنا ہوگا، ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کے بڑے شہروں میں 50 فیصد سے زائد فضائی آلودگی وہاں کے ماحول کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ ذرات فضا میں دیگر علاقوں سے سفر کرکے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔
بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے لیکن خوش قسمتی سے گزشتہ تین دہائیوں سے یہ ممالک خاموشی سے ایک دوسرے سے فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں۔
گزشتہ سالوں میں ان ممالک نے فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات میں حصہ لیا ہے۔ 1988ء میں آلودگی کی روک تھام اور کنٹرول کی ’میل ڈیکلیریشن‘ سے لے کر کٹھمنڈو روڈ میپ تک جو 2022ء نیپال میں منعقدہ پہلی سائنس پالیسی ڈائیلاگ سے سامنے آیا، اس کی مثالیں ہیں۔ گزشتہ سال بھوٹان میں دوسری سائنس ڈائیلاگ پالیسی کا انعقاد ہوا جہاں ممالک نے 35 بائے 35’ کا ہدف طے کیا جس میں 2035ء تک فضائی آلودگی کو کم کرنے کا اعادہ کیا گیا۔
اس ڈائیلاگ میں معلومات کا اشتراک کرنے، مشترکہ اور کفایت شعاری سے اقدامات کرنے، سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان شراکت داری قائم کرنے، سائنس کے فیصلوں کی رہنمائی کو یقینی بنانے اور علاقائی تنظیموں کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر ایک مضبوط معاہدہ تشکیل پا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے پر اعتماد قائم کرنے کے لیے کارفرما ہیں۔
تاہم سب متفق ہیں کہ اگرچہ سائنسی سفارت کاری اہم ہے لیکن صرف اس پر انحصار کرتے ہوئے ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکتے۔ جب تک خطے کے ممالک کے سیاسی تعلقات کے درمیان تناؤ برقرار رہے گا تب تک تمام کوششوں کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی اور تبدیلی سے متعلق یہ تمام مذاکرات بند کمروں میں کانفرنسز کی میزوں تک ہی محدود رہیں گے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔