اب پاکستان کا وزیر خارجہ نہیں، امریکا میں ملاقاتیں ذاتی حیثیت میں کیں، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکا اور پاکستان کے درمیان مضبوط عوامی تعلقات پر زور دیتے ہوئے اس ہدف کے حصول کے لیے پاکستانی امریکی برادری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں امریکا کے 2 روزہ قومی دعائیہ ناشتے کی تقریب کے دوران عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں پر روشنی ڈالی۔
دعائیہ ناشتہ ایک سالانہ اجتماع ہے، جس کی میزبانی امریکی قانون سازوں اور دیگر معزز ین نے کی، جہاں امریکی صدر کلیدی خطاب کرتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی؟ بلاول بھٹو زرداری نے واضح کیا کہ میں اب پاکستان کا وزیر خارجہ نہیں ہوں، اس لیے میں نے جو بھی ملاقاتیں کیں اور میری کئی ملاقاتیں ہوئیں وہ کسی سرکاری حیثیت میں نہیں تھیں، میں نے ذاتی حیثیت میں ان عہدیداروں اور دیگر لوگوں سے ملاقات کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کی صبح قومی دعائیہ ناشتے میں خطاب کیا، جس میں بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔
پی پی رہنما نے کہا کہ انہوں نے امریکی کانگریس کے متعدد موجودہ اور سابق ارکان سمیت دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی، لیکن اس بات پر زور دیا کہ ان کا دورہ خارجہ پالیسی پر تبادلہ خیال پر مرکوز نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا اپنا سیاق و سباق ہے، اور میرا ماننا ہے کہ ہمیں امریکی تاجروں اور امریکا میں مقیم پاکستانی برادری کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطے رکھنے چاہئیں۔
بعد ازاں بلاول بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ انہیں جمعرات کے عشائیہ میں اختتامی کلمات ادا کرنے پر فخر ہے، انہوں نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی میری والدہ کے لیے بہت معنی رکھتی تھی، اور مجھے فخر ہے کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ دعائیہ ناشتے میں اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔
عقیدے اور شکست کی عکاسی
اختتامی تقریب سے اپنے خطاب میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنی زندگی میں خاص طور پر شکست کے لمحات میں عقیدے کے کردار کے بارے میں ذاتی خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے اپنے نانا، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور ماموں شاہنواز اور میر مرتضیٰ بھٹو کی موت کے بارے میں جاننے کے گہرے اثرات کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ہر ایک کا اپنا عقیدے کا سفر ہوتا ہے، میرے لیے اور بہت سے لوگوں کے لیے، عقیدے کا شکست سے تعلق ہے، جتنا زیادہ آپ ہاریں گے آپ کا اعتماد اتنا ہی مضبوط ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کو تقسیم کے بجائے اتحاد کے لیے ایک طاقت کے طور پر کام کرنا چاہیے، مذہب کو اکثر ہمیں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن عقیدے کے بارے میں، اللہ کے بارے میں، مذہب کے بارے میں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی طاقت نہیں، جو ہمیں تقسیم کرتی ہے، یہ ایک ایسی طاقت ہے جو ہمیں متحد کرتی ہے۔
انہوں نے اسلام اور عیسائیت کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے عقیدے پر بھی روشنی ڈالی اور یاد کیا کہ کس طرح ان کی والدہ نے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سکھایا تھا جیسا کہ قرآن اور بائبل دونوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
انہوں نے دونوں مذاہب کے درمیان مشترکہ روحانی بنیاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عیسیٰ کا تعلق صرف عیسائیوں سے نہیں ہے۔
عالمی رہنماؤں کا اجتماع
قومی دعائیہ ناشتے میں دنیا بھر کی بااثر شخصیات نے شرکت کی، جس سے عالمی رہنماؤں کو مشترکہ اقدار پر غور کرنے کا موقع ملا۔
یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بلاول بھٹو زرداری کا پہلا موقع تھا جب انہوں نے اس تقریب میں شرکت کی، جب کہ اس سے قبل بھی وہ سابق امریکی صدور کے دور میں قومی دعائیہ ناشتے میں شرکت کرچکے ہیں۔
تقریب کے لیے دعوت نامے پر اظہار تشکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں قومی دعائیہ ناشتے یا بلکہ بین الاقوامی دعائیہ ناشتے کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں، جس نے ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر مشترکہ عقیدے کے بارے میں متحد ہونے کا موقع فراہم کیا۔
اپنے افتتاحی کلمات میں صدر ٹرمپ نے امریکا بھر میں مسیحی مخالف تعصب کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے اقدام کا اعلان کیا، اس اقدام میں امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی کی سربراہی میں ایک نئی ٹاسک فورس اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک صدارتی کمیشن کا قیام بھی شامل ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی شرکت بین المذاہب مکالمے میں پاکستان کی جاری مصروفیت اور امریکا میں اس کی وسیع تر سفارتی موجودگی کو اجاگر کرتی ہے۔
اتحاد، عقیدے اور لچک کے بارے میں ان کے ریمارکس نے اجتماع کو متاثر کیا، جس سے اس پیغام کو تقویت ملی کہ مذہب کو تقسیم کے ذریعے کے بجائے برادریوں کے درمیان پُل کا کام کرنا چاہیے۔