’فلسطین میں امن لانے کی جتنی طاقت آج سعودی عرب کے پاس ہے کسی ملک کے پاس نہیں‘
گزرے سالوں میں مقبوضہ فلسطین فلسطینیوں کو واپس دینے کے لیے بہت سی تجاویز دی گئیں جن میں سے دو قابلِ ذکر ہیں۔ 1981ء میں جب سرد جنگ عروج پر تھی تب سعودی عرب کی جانب سے ’فہد منصوبہ‘ سامنے آیا تھا جوکہ درحقیقت ایرانی لیڈر آیت اللہ خمینی کے فلسطین کے حوالے سے سخت عسکریت پسند بیانات پر مغرب کا ردعمل تھا۔
دوسری جانب اوسلو معاہدہ ہے جو سرد جنگ ختم ہونے کے بعد طے کیا گیا۔ یہ معاہدہ بھی مغرب کی جانب سے سامنے آیا جو سرد جنگ جیتا تھا اور اس معاہدے سے اس کے مذموم مقاصد وابستہ تھے۔
ایرانی انقلاب کے 6 روز بعد 18 فروری 1979ء کو یاسر عرفات نے آیت اللہ خمینی سے ملاقات کی۔ تہران کے مہرآباد ایئرپورٹ پر یاسر عرفات نے صحافیوں کو بتایا، ’ایران اور امام خمینی نے دکھایا ہے کہ ہماری امہ کبھی بھی ہمت نہیں ہارے گی۔ ایرانیوں نے فلسطینیوں کے گرد جکڑی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ آپ کا عظیم انقلاب ہماری جیت کا ضامن ہے‘۔
یاسر عرفات کے اس بیان کے بعد عرب لیگ سربراہی بیٹھک کی اشد ضرورت محسوس ہوئی جو اسی سال مراکش کے شہر فاس میں منعقد ہوئی۔
وہ عرب ممالک جنہوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی، نے ایک مضبوط اتحاد قائم کیا جس کی قیادت سیکیولر لیبیا، عراق اور جنوبی یمن (جوکہ اس وقت مارکسسٹ ریاست تھی) نے کی۔ ان کی قیادت نے سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ لیا جس کا جواز انہوں نے یہ دیا کہ جیسے ہی سوویت یونین کا خاتمہ ہوگا تو ایک ایک کرکے ان ممالک کے لیڈران کو برطرف کردیا جائے گا۔ اوسلو معاہدے کے نتائج بھی کچھ ایسے ہی تھے لیکن وجوہات مختلف تھیں۔
اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم اسحٰق رابین نے اوسلو معاہدے کی حمایت کرنے کا اہم فیصلہ لیا جس کے تحت اسرائیل 1967ء میں ہتھیائے گئے کچھ علاقے عرب ممالک کو واپس دینے پر آمادہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد فلسطینیوں کو بھی اپنی زمینوں پر واپسی کا موقع ملا لیکن وہ بہت کم تعداد میں تھے۔
یہ معاہدہ قبول کرنے کی وجہ سے اسحٰق رابین کو قتل کردیا گیا۔ حتیٰ کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر بہت کم اور محدود کنٹرول دینے کا خیال بھی صہیونی انتہا پسندوں کو گراں گزرا اور ایک ریلی کے دوران کسی صہیونی نے دو گولیاں اسحٰق رابین کے سینے میں اتار دیں۔
صہیونیوں کے ہاتھوں اسحٰق رابین کے قتل اور ہندوتوا کے متعصب حامیوں کی جانب سے موہن داس کرم چند گاندھی کے قتل کے درمیان مماثلت قابلِ ذکر ہے۔ مہاتما گاندھی فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے جبری بےدخلی یعنی نکبہ کے ناقد تھے جبکہ انہوں نے کافی ہچکچاہٹ کے بعد 1947ء میں تقسیم ہند کی حمایت کی تھی۔ دہلی کی ایک دعائیہ تقریب میں ان کے قاتل نے ان کے کمزور جسم میں تین گولیاں ماریں۔ ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو سراہا گیا، حتیٰ کہ نسل پرست ہندوتوا نظریے کے بانی وی ڈی ساورکر نے بھی ممکنہ طور پر ناتھورام گوڈسے کی حمایت کی تھی۔
اسی طرح اسحٰق رابین کو بھی عربوں سے نفرت کرنے والے ایک حلقے نے قتل کیا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنیامن نیتن یاہو سے خوب متاثر تھے۔ نیتن یاہو، اسحٰق رابین کی امن کی کوششوں کے پُرتشدد مخالف تھے۔ ساورکر اور نیتن یاہو دونوں میں مشترک مسلمانوں (حتیٰ کہ مسیحیوں) کے لیے ان کی نفرت ہے، تو ہمیں ہندوتوا اور صہیونیت کو اپنے مشترکہ دشمن کی خونریزی کا جشن مناتے دیکھتے ہوئے معتجب نہیں ہونا چاہیے۔
اُس وقت کے سعودی ولی عہد سے منسوب فہد منصوبے کے تحت سعودی عرب نے عرب ممالک سے کہا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں اور پہلی بار دو ریاستی حل پر بات کی۔ دیکھا جائے تو اس منصوبے میں بہت سی تجاویز دی گئی تھیں لیکن سب اس پر متفق نہیں تھے بالخصوص فلسطینی اور دیگر عرب ممالک کے رہنما جن کا نقطہ نظر مختلف تھا۔
لیلیٰ خالد جن کی وجہِ شہرت دو اسرائیلی طیارے ہائی جیک کرنا ہے، مارکسسٹ پیپلز فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کا حصہ تھیں۔ وہ اب 80 سال کی ہوچکی ہیں اور فلسطین میں مذہبی ریاست بنانے کی حماس کی مہم کی مخالف ہیں لیکن وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف حماس کی مزاحمتی مہم کی حمایت کرتی ہیں۔ لیلیٰ خالد اور ان کے ساتھی ایک ایسے کثیرالثقافتی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جہاں عرب اور یہودیوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
حالیہ تنازع کی روشنی میں فہد منصوبہ شاید ماضی میں سب سے زیادہ قابلِ تسلیم قرارداد تھی جس کے ساتھ انتباہات بھی تھے۔ تنازع میں براہ راست متاثر ہونے والے عناصر کے تحفظات کے باوجود ایک بار پھر سعودی عرب ثالث بن چکا ہے لیکن فہد منصوبے پر دوبارہ بات کی جاسکتی ہے۔ اس 8 نکاتی منصوبے میں تجاویز دی گئی تھیں کہ،
- اسرائیل، عرب یروشلم سمیت 1967ء میں قبضہ کیے گئے تمام عرب علاقوں کو خالی کردے گا۔
- 1967ء کے بعد عرب مقبوضہ زمینوں بشمول عرب یروشلم پر کی گئی اسرائیلی آبادکاری کو توڑ کر ختم کردیا جائے گا۔
- تمام مذاہب کو مقدس مقامات پر عبادت کی آزادی حاصل ہوگی۔
- فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق حاصل ہوگا اور جو لوگ واپس نہ آنے کا انتخاب کریں گے انہیں معاوضہ دیا جائے گا۔
- اقوام متحدہ کی نگرانی میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بحالی کی ایک عارضی مدت ہوگی جو چند ماہ سے زیادہ نہیں ہوگی۔
- ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا جس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا۔
- تمام ریاستیں (بشمول اسرائیل) خطے میں امن کو یقینی بنائیں گی۔
- اقوامِ متحدہ اور اس کے اراکین ان نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔
جیسا کہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسرز ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔ لیکن اس کے بجائے یہ آہستہ آہستہ اپنا رخ بدلتی ہے۔ آلِ سعود خاندان نے برطانیہ کے کرنل ٹی ای لارنس سے لے کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور تک ایک طویل اور تنگ سفر طے کیا ہے۔ جہاں اسرائیل کو واشنگٹن کی مضبوط حمایت حاصل ہے وہیں اسے امریکا کی سعودی عرب کی بھرپور حمایت کے حوالے سے تشویش بھی ہے۔
تاریخ ایک بار پھر متجسس نگاہوں سے سعودی عرب کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ماضی میں اسرائیل کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کو تیل نہ دینے کی بھرپور مہم چلا چکا ہے۔ اب مختلف قوتوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ مغربی ممالک اخوان المسلمون کو کنٹرول کرنے کے لیے مصر کی آمریت کی مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل کا سرپرست مغرب جبکہ ایران کی سرپرستی چین اور روس کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت سعودی عرب ایک منفرد پوزیشن میں ہے جو ایک جانب برکس ممالک کے گروپ میں شامل ہونے پر غور کررہا ہے جبکہ دوسری جانب روس اور امریکا کے درمیان غیر متوقع مذاکرات کی میزبانی بھی کررہا ہے جو یورپ کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ فلسطین میں امن لانے کے لیے آج سعودی عرب کے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ طاقت اور مواقع ہیں۔ ایسا کرنے سے ایران اور عرب عوام کے درمیان خطرناک اتحاد کو روکا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب آج جس پوزیشن پر ہے، اس کے ساتھ دنیا بھی خود کو ایک اہم دوراہے پر پاتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔