بچوں میں اسکرینز کے استعمال کا بڑھتا رجحان، والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
یہ مناظر ہمارے معاشرے میں عام ہوچکے ہیں کہ والدین کچھ کام کرنا چاہتے ہیں یا آرام کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے بچے شور مچا رہے ہیں یا ان کی توجہ کے طالب ہیں۔ ایسے میں والدین کو سمجھ نہیں آتا کہ بچے کی توجہ خود پر سے کیسے ہٹائیں تو وہ بچے کو اپنا اسمارٹ فون دے دیتے ہیں تاکہ وہ مشغول رہے۔
ایسی صورت حال میں بچے کی توجہ مبذول ہوجاتی ہے اور وہ گھنٹوں اسکرین کے سامنے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس وقت میں والدین اپنا کام کرسکتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ بھی عام بات بن چکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹی وی دیکھتے یا ڈیوائس استعمال کرتے ہوئے کھانا کھانے دیتے ہیں۔ اس سے بچے کا دھیان اسکرین پر ہوتا ہے اور کھاتے ہوئے وہ زیادہ نخرے بھی نہیں دکھاتا۔
چائلڈ اسپیشلسٹ اور سندھ جنرل ہسپتال کی چیف پیڈیاٹریشن ڈاکٹر مبینہ اگبوٹ والا بتاتی ہیں کہ ’بہت سی مائیں ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ کے دوران بچے کو پُرسکون رکھنے کے لیے انہیں اپنا فون تھما دیتی ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ جب ڈاکٹر معائنہ کر رہا ہو تو بچہ نہ روئے‘۔
جب وبائی مرض کورونا نے آؤٹ ڈور سرگرمیوں کو محدود کردیا تھا تو اسکرینز کا استعمال ہی بچوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا۔
کم عمری میں اسکرینز کی عادت
بہت سے مطالعات سے سامنے آتا ہے کہ بچوں کی بڑی تعداد اسکرینز کا کثرت سے استعمال کرتی ہے۔ اور سائبر سیکیورٹی کمپنی کاسپرسکی کے ایک حالیہ سروے میں سامنے آیا کہ ’89 فیصد والدین اپنے بچوں کو دورانِ سفر مصروف رکھنے یا خود کو آرام دینے کے لیے ان کے ہاتھ میں گیجٹ تھما دیتے ہیں‘۔
فروری میں شائع ہونے والے اس سروے میں یہ بھی سامنے آیا کہ مشرق وسطیٰ، ترکیہ اور افریقہ (میٹا) کے علاقوں میں تقریباً 53 فیصد بچے جس عمر میں اپنا پہلا ذاتی گیجٹ جیسے اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ حاصل کرتے ہیں، وہ 3 سے 7 سال کے درمیان ہے۔
امریکن اکیڈمی آف چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ سائیکاٹری کے مطابق، مئی 2024ء تک امریکا میں 8 سے 12 سال کی عمر کے بچے اسکرینز کے سامنے روزانہ تقریباً 4 سے 6 گھنٹے گزارتے ہیں۔ نوجوان ٹی وی، اسمارٹ فونز، ٹیبلٹ اور کمپیوٹر جیسے آلات کی صورت میں اسکرینز کے سامنے بیٹھتے ہیں۔ وہ ان اسکرینز کے سامنے دن میں 9 گھنٹے اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے فراہم کردہ ضوابط کے مطابق دو سال سے کم عمر بچوں اور دو سے 5 سال کی عمر کے بچوں کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ سے بھی کم اسکرین ٹائم کی تجویز دی گئی ہے۔
اسی طرح امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے اے پی) نے مشورہ دیا ہے کہ ’18 ماہ سے 24 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو فیملی سے اسکرین کے ذریعے بات کرنے کے علاوہ اسکرینز سے گریز کرنا چاہیے۔ دو سے 5 سال کی عمر کے بچوں کے لیے، وہ روزانہ ایک یا دو گھنٹے تک اسکرین ٹائم محدود کرنے کا مشورہ دیتے ہیں‘۔
بچوں پر ذہنی و جسمانی اثرات
جب بچے بہت چھوٹی عمر سے ہی اسکرینز کے سامنے بیٹھتے ہیں تو وہ ٹی وی یا الیکٹرونک آلات استعمال کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسکرین ٹائم بڑھتا چلا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ یہ ان کی صحت اور شخصیت کو اس طرح متاثر کرنا شروع کردیتا ہے کہ جس کا شاید ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر نرگس اسد جو کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں سائیکاٹری ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ہیں، ڈان کو بتاتی ہیں کہ کسی بھی چیز کے زائد استعمال کی طرح، بہت زیادہ اسکرین ٹائم بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے جبکہ بالخصوص بچوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو بچے اسکرین پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ نہ صرف کم سوتے ہیں بلکہ ان کی نیند کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ وہ اپنے کھانے پینے میں غفلت برتتے ہیں اور جسمانی سرگرمیوں میں بھی کم حصہ لیتے ہیں۔ مناسب غذائیت اور ورزش کی کمی موٹاپے اور وزن کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر نرگس بتاتی ہیں کہ اسکرین پر زیادہ وقت صرف کرنے سے جسم کا توازن بگڑجاتا ہے جبکہ یہ گردن، کاندھوں اور کمر میں دائمی درد کا باعث بن سکتا ہے۔ وہ ایک 10 سالہ مریض کے بارے میں بتاتی ہیں جس کی ٹیبلٹ کے مسلسل استعمال کی وجہ سے کہنی مڑ کر جزوی طور پر جھک گئی تھی۔ نتیجتاً بچے کو فزیوتھراپی سمیت دیگر علاج کروانے کی ضرورت پیش آئی تھی۔
ڈاکٹر نرگس اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ’زیادہ اسکرین ٹائم کا براہ راست اثر بینائی پر پڑتا ہے‘۔ اسکرینز سے آنے والی روشنی، خاص طور پر جب اسے قریب سے دیکھا جائے تو اس سے آنکھوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان بچوں میں سر درد عام ہوتا ہے جو اسکرین پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ’اگر کسی بچے میں مائیگرین کی خاندانی تاریخ موجود ہے تو زیادہ اسکرین دیکھنے سے سر درد پہلے شروع کرسکتا ہے اور اس سے مائیگرین بچپن سے ہی بگڑ سکتا ہے‘۔
ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم نیند میں خلل ڈال سکتا ہے۔ اسکرینز سے خارج ہونے والی نیلی روشنی بالخصوص ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز سے نکلنے والی شعاعیں میلاٹونن کو متاثر کرتی ہے (ہارمون جو نیند کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے)۔ یہ میلاٹونن کی پیداوار کو کم کر دیتا ہے جس سے دماغ اور جسم کو آرام کرنا مشکل ہوجاتا ہے جس سے نیند میں تاخیر اور مشکلات جیسے مسائل پیش آسکتے ہیں۔
ڈاکٹر نرگس نے بتایا کہ نیند کی کمی انسان کی علمی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے جس سے موڈ میں تبدیلی، ڈپریشن اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیند کی کمی بچوں کو چڑچڑا بنا دیتی ہے جبکہ وہ کھانے یا مطالعے پر ٹھیک سے توجہ نہیں دے پاتے۔ وہ اس ضرورت پر زور دیتی ہیں کہ ’چھوٹے بچوں کے لیے 10 گھنٹے کی نیند لینا ضروری ہے‘۔
ڈاکٹر نرگس مزید بتاتی ہیں کہ زیادہ اسکرین ٹائم کی وجہ سے بچے تاخیر سے بولنا شروع کرتے ہیں۔ مطالعات سے سامنے آیا کہ بچوں کے لیے زبان اور بولنا سیکھنے کا بہترین طریقہ بات چیت میں مشغول ہونا اور بڑوں کے ساتھ کھیلنا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ’چونکہ بچے ٹائپنگ میں زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان کی تحریری صلاحیتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے‘۔ اس سے اسکول میں ان کی کارکردگی کم ہوسکتی ہے جبکہ کچھ نوجوان اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برت سکتے ہیں کیونکہ وہ اسکرین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نرگس بتاتی ہیں کہ اسکرین کا ضرورت سے زیادہ استعمال سماجی صلاحیتوں کو بھی متاثر کرسکتا ہے کیونکہ اس سے وہ وقت کم ہوجاتا ہے جو بچہ بات چیت میں گزارتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ اسکرینز سماجی اضطراب کا شکار بچوں کو معاشرے سے فرار کا راستہ فراہم کرتی ہیں کیونکہ اسکرینز کے سامنے بیٹھنے کی وجہ سے ذاتی طور پر دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے یا ان کا سامنا کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔
ڈاکٹر نرگس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’جب بچے آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو بعض اوقات ان میں لڑائی یا اختلافات ہوجاتے ہیں۔ ان حالات سے بچوں کو یہ سیکھنے میں مدد ملتی ہے کہ تنازعات سے کیسے نمٹا جاتا ہے‘۔
ایک ہی وقت میں ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم بچوں کو مشتعل بنا سکتا ہے، ان کی توجہ کم ہوسکتی ہے اور یہاں تک کہ توجہ کی کمی کی وجہ سے وہ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر (ADHD) کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر مبینہ بتاتی ہیں کہ ’ ایسے بچے زیادہ جلدی غصہ ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ ایک چیز پر توجہ دینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اکثر بے چینی سے دوچار رہتے ہیں’۔
والدین کی نگرانی کی ضرورت
دونوں ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگرچہ اسکرینز کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں لیکن بچے جلد ہی ایسے مواد سے متعارف ہوجاتے ہیں جو ان کی عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں ہوتا اور اس سے ان پر دباؤ پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر نرگس بتاتی ہیں کہ ’بڑے بچے اسکرین ٹائم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن تین یا چار سال کے بچوں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘۔ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ’چھوٹے بچوں کو سیکھنے اور بڑھنے میں مدد کرنے کے لیے کتابیں اور کھلونے جیسی مصروفیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے‘۔
لیکن والدین کو ان بچوں کے ساتھ کیا کرنا چاہیے جو اسکرینز سے دور رہنے سے انکاری ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر مبینہ کے مطابق مسئلے کا آغاز اکثر والدین کے رویوں سے ہوتا ہے کیونکہ والدین بچوں کی توجہ خود سے بھٹکانے کے لیے انہیں موبائل یا دیگر آلات تھما دیتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’بڑی عمر کے بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کی دیکھا دیکھی اسکرین کا استعمال زیادہ کرتے ہیں تو ایسے میں والدین پر منحصر ہے کہ وہ حدود متعین کریں اور کچھ والدین کامیابی سے اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کر بھی رہے ہیں‘۔
ویڈیوز دیکھنا، آن لائن گیمز کھیلنا یا سوشل میڈیا پر وقت گزارنا لطف ضرور دے سکتا ہے لیکن اسے عادت بننے سے روکنا ہوگا جس کے لیے اسکرین ٹائم محدود کرنا انتہائی ضروری ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے اسکرین ٹائم کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات لیتے ہوئے اسے محدود کریں۔ اپنے بچوں کو اسکرین کے استعمال کے فوائد اور نقصانات دونوں کے حوالے سے آگاہی دینی چاہیے اور صحت مند توازن کو یقینی بنانے کے لیے تفریح کے متبادل طریقے فراہم کرنے چاہئیں۔
یقیناً اس سب کے لیے والدین کو سب سے پہلے خود آگاہی کی ضرورت ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔