اورنگزیب کی 300 سال پرانی قبر کھود کر ہندوتوا حامی آخر کیا حاصل کرلیں گے؟
عالمی منظرنامے میں اس مدت کے درمیان اور کیا واقعات رونما ہورہے تھے کہ جب 1526ء سے 1707ء میں اورنگزیب کی وفات تک ہندوستان میں مغل راج تھا؟
ہندو قوم پرستوں کی جانب سے اورنگ آباد میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو تباہ کرنے کے عجیب مطالبات نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا اورنگزیب واقعی اتنا برا تھا؟ کیا انگریزوں کو بھی اپنے بادشاہ ہینری ہشتم کی قبر کو تباہ کر دینا چاہیے جو اپنی بیویوں سے بدسلوکی اور انہیں قتل کرنے کے لیے بدنام تھا؟ ’نفسیاتی‘ ہینری ہشتم اسی دور میں برطانیہ کا حاکم تھا کہ جب ہندوستان میں پہلے دو مغل بادشاہوں بابر اور ہمایوں کا راج تھا (مشہور یادداشتیں بتاتی ہیں کہ بابر شاعر تھا جبکہ ہمایوں صوفیانہ اور روحانی پہلوؤں کی جانب راغب تھا)۔
ہندوتوا نظریات روایتی طور پر ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغض رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ایڈولف ہٹلر کو یہودیوں سے نفرت تھی یا اُس نفرت کو مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے جس کی بنیاد پر بن یامن نیتن یاہو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مرتکب ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو تاریخ سے مکمل طور پر روشناس ہونا چاہیے اور ہندوستان کے حکمرانوں کے علاوہ اس دور میں دنیا پر حکمرانی کرنے والے دیگر حاکموں کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ انہیں علم ہوسکے کہ اُس وقت دنیا میں ناانصافیوں یا ظلم کی اور کون کون سی مثالیں رقم ہورہی تھیں۔
جہاں بی جے پی اورنگزیب پر شدید تنقید کرتی ہے اور اس سے شدید نفرت کا اظہار کرتی ہے وہیں انہیں اس دور کے واقعات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جب یورپی باشندوں نے امریکا کے ساحلوں پر قدم رکھ کر اپنی نوآبادیاتی حکومت قائم کی تھی کیونکہ یہ تو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے آغاز سے بھی تین دہائی پرانی بات ہے۔
یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں نے مقامی امریکیوں جنہیں ’ریڈ انڈین‘ کہا جاتا تھا، کے خلاف تقریباً ایک ہزار 500 جنگوں، حملوں اور چھاپوں کے اختیارات متعلقہ حکام کو دیے جوکہ کسی بھی ملک کے مقامی لوگوں کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی ظالمانہ کارروائیوں میں سے ایک ہے۔ تاریخی اعتبار سے جب 1492ء میں کرسٹوفر کولمبس امریکا آیا تھا تو اس وقت لگ بھگ ایک کروڑ افراد شمالی امریکا میں مقیم تھے لیکن 19ویں صدی کے اواخر میں نام نہاد ’انڈین جنگوں‘ کے اختتام تک مقامی ریڈ انڈینز کی یہ تعداد کم ہوکر محض 2 لاکھ 50 ہزار رہ گئی تھی۔
1707ء میں ایک اور اہم واقعہ پیش آیا تھا جو آج کی دنیا کے لیے دورافتادہ علاقے میں مدفن مغل بادشاہ سے زیادہ متعلقہ اور اہمیت کا حامل ہے۔ اسی سال انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ نے متحد ہوکر عظیم برطانیہ بنایا تھا۔ دونوں ممالک کی اس ’مصلحت کی شادی‘ کے مغربی دنیا پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے جبکہ امریکا میں برطانوی راج مضبوط کرنے میں بھی مدد ملی۔
تاہم اسکاٹ لینڈ کی جانب سے اس اتحاد کا مکمل خیرمقدم نہیں کیا گیا تھا اور گزرتے سالوں میں اس مصلحت کی شادی میں علیحدگی کی گونج بھی سنائی دی کیونکہ اسکاٹش قوم پرست کئی بار تحریکیں چلا کر آزادی کی خواہش وضع کرچکے تھے۔ اگرچہ اسکاٹ لینڈ کے باسی تو تاریخی غلطی کو درست کرنا چاہتے تھے لیکن 300 سال پرانی قبر کو کھود کر ہندو قوم پرست آخر کیا حاصل کرنے کی امید کررہے ہیں؟
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی نظر میں اورنگزیب ہندو مخالف حکمران تھا جس نے غیر مسلمانوں پر حفاظتی ٹیکس عائد کیے۔ تنقید بجا ہے۔ تاہم پروفیشنل مورخین مکمل طور پر مودی کے نظریے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اورنگزیب نے ہندوستان جیسے متنوع ملک پر حکومت کرنے کے لیے قدامت پسندی سے کام لیا مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ اس نے کچھ ہندو مندروں کو تباہ کیا لیکن اس نے ہندو مندروں کو اہم عطیات بھی دیے تھے۔
سچ پوچھیے تو جب تک بی جے پی نے اپنی مذموم سیاست کی وجہ سے اس پورے معاملے کو اپنی فرقہ وارانہ جنونیت میں تبدیل نہیں کیا تب تک کسی کو اورنگزیب یا اس کی قبر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بی جے پی نے سیاسی فائدے کے لیے آگ کو بھڑکایا اور اس مقصد میں اس کا ساتھ ایک مشکوک ہندی فلم نے دیا جس کی پشت پناہی اور حمایت مودی اسٹیبلشمنٹ نے کی۔
’چھاوا‘ نامی اس فلم میں اورنگزیب کے ہاتھوں مراٹھا جنگجو بادشاہ سمبھاجی کے وحشیانہ قتل کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے لیکن اس فلم میں تاریخ کے ان پہلوؤں یا حقائق کو مسخ کردیا گیا ہے جن سے ہندوتوا کے فرقہ وارانہ نظریے کی نفی ہورہی تھی۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر جانبدار کہانی پیش کی گئی ہے اور ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جو ہندوتوا کے نظریے کے مطابق ہے، مگر ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔
چلیے ناقدین کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ اورنگزیب ایک انتہائی خوفناک ظالم حکمران تھا۔ اس نے تخت کے لیے اپنے روحانی بڑے بھائی دارا شکوہ کو قتل کیا۔ اس نے سکھوں، مراٹھوں اور جٹوں کی قیادت میں کاشتکاروں کی باغی تحریکوں کا مقابلہ کیا۔ تاہم تنگ نظر مسلمان حاکم کے طور پر مشہور ہونے کے باوجود اس میں خامی تھی، کچھ تضادات تھے۔ اس نے اپنی فوج کے اہم عہدوں پر ہندو جرنیل تعینات کیے ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ ایسے بھی مواقع تھے جب اس نے مبینہ ہندو مخالفت سے وقفہ لیا اور بیجاپور اور گولکنڈہ کے مسلم حکمرانوں پر بھی چڑھائی کی۔ اورنگزیب نے جہاں اپنے دور میں قابلِ احترام سکھ گرو تیغ بہادر کو پھانسی دی، وہیں اس نے ’صوفیانہ اقدار کے تابع‘ شاہ سرمد کا بھی سر قلم کیا جس نے عدالت کے سخت ضوابط کے کلچر کو چیلنج کیا تھا۔
شاہ سرمد اور آرچ بشپ تھامس بیکٹ کے قتل کے درمیان مماثلت تھی جیسا کہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے پلے ’مرڈر ان دی کیتھیڈرل میں بیان کی ہے۔ ایلیٹ کے ڈرامے میں ہینری دوم بالواسطہ طور پر تھامس بیکٹ کے قتل کا حکم دیتا ہے جوکہ اتھارٹی اور مذہبی نظریات کے درمیان تصادم کی وجہ سے ایک المناک واقعہ بن جاتا ہے۔
اسی طرح شاہ سرمد اصل میں ایک فارسی بولنے والا آرمینیائی تھا۔ وہ یہودی تھا جس نے اسلام قبول کیا لیکن اورنگزیب کے اردگرد سخت مذہبی عقائد رکھنے والے مشیروں نے اسے بدعتی سمجھا۔ شاہ سرمد کی قبر دہلی میں جامع مسجد کے قریب واقع ہے جہاں مختلف عقائد کے ماننے والے مرد اور خواتین آتے ہیں اور منتیں مرادیں مانگتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بہترین بادشاہ کون تھا؟ کیونکہ واضح طور پر اورنگزیب تو ان کی نظر میں بہترین نہیں۔ کچھ حلقے کہیں گے کہ اکبر بہترین تھا لیکن دائیں بازو کے ہندو قوم پرست تو اس سے بھی اسی طرح بلکہ کبھی کبھی تو اورنگزیب سے زیادہ اکبر سے نفرت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح مسلم عقائد کی سخت پیروی کرنے والا طبقہ اکبر کو غدار کے طور پر جانتا تھا جس نے دیگر مذاہب کے لیے کشادہ نظری کا مظاہرہ کیا تھا۔
کیا ایسا کوئی ہندو حکمران نہیں گزرا جس نے کبھی اپنے وقت میں ہندو حکمران سے جنگ نہ لڑی ہو، یا اس طرح کے تنازعات کا وبال صرف مسلم حکمرانوں کے کھاتے میں آتا ہے؟ اس بارے میں کیا کہا جائے کہ جب چندرگپت موریا اور اس کی فوجی حکمت عملی کے ماہر چانکیا نے مگدھ کے نند حکمرانوں کو دھوکے سے شکست دی؟ کیا چانکیا نے طاقت کے حصول کی کوششوں میں ہندو اور غیر ہندو مخالفین کے درمیان فرق کیا تھا؟
یہ دعویٰ کہ مسلم حکمرانوں نے دیگر مسلم حاکموں کے لیے درگزر کا مظاہرہ کیا اتنا ہی غیرحقیقت پسندانہ ہے جتنا کہ یہ دعویٰ کہ ہندو راجاؤں نے اپنے مخالف دیگر ہندو حکمرانوں کے خلاف جنگیں نہیں لڑیں۔
اب مہاراشٹرا، اورنگ آباد میں موجود ایک پرانی قبر کو تباہ کرنے کے حوالے سے بپا شور کو آخر ہم کیسے بیان کریں گے؟ ذرا تصور کریں کہ قبر تباہ کرنے کی مہم کبھی شروع ہی نہ ہوئی ہوتی تو شہ سرخیوں کی زینت کیا ہوتا؟ اس وقت کئی اہم معاملات ہیں جو اورنگزیب کے خلاف مہم کی وجہ سے دب رہے ہیں۔ بھارت کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے زائد ٹیرف لگانے کی دھمکی کی وجہ سے معاملات مزید پیچیدہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ رواں سال بہار کی اہم ترین ریاست میں انتخابات متوقع ہیں۔ اورنگزیب کی اس خطے سے تاریخی وابستگی ہے جبکہ اورنگزیب کے معاملے میں حالیہ تقسیم سے بی جے پی کو انتخابات میں فائدہ ہوسکتا ہے۔ ممکنہ طور پر آج اورنگزیب کو نشانہ بنانے کی ممکنہ وجہ مہاراشٹر میں اقتدار کے لیے برہمن-مراٹھا دشمنی ہوسکتی ہے۔
اس وقت ریاست مہاراشٹرا میں بی جے پی کا وزیراعلیٰ برہمن عقیدے کا ماننے والا ہے جس نے اپنے مراٹھا اتحادی کی جگہ لی ہے جس کے بارے میں خیال پایا جاتا ہے کہ وہ غصے میں ہے۔ مذکورہ فلم پر الزام ہے کہ اس میں مراٹھا حریفوں کو سمبھاجی کے غدار کے طور پر پیش کیا گیا حالانکہ مورخین کا کہنا ہے کہ سمبھاجی کے خلاف سازش کرنے والے درحقیقت برہمن تھے۔ بھارت میں بپا تشدد کی لہر نے اس شرمناک حقیقت پر پردہ ڈال دیا ہے۔
تاہم فلم اچھا بزنس کررہی ہے اور جہاں تک بات ہے اورنگزیب کی تو وہ اس وقت فلم کی اسکرپٹ تبدیل کرنے اور اپنی قبر کی حفاظت کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔