• KHI: Maghrib 6:47pm Isha 8:04pm
  • LHR: Maghrib 6:21pm Isha 7:43pm
  • ISB: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm
  • KHI: Maghrib 6:47pm Isha 8:04pm
  • LHR: Maghrib 6:21pm Isha 7:43pm
  • ISB: Maghrib 6:27pm Isha 7:51pm

’ٹیکس دہندگان اور بجلی صارفین کو آسان ہدف سمجھ کر بار بار پریشان کیا جاتا ہے‘

شائع March 27, 2025

وفاقی کابینہ نے بدھ کو اپنے اجلاس میں دو اہم اور درست فیصلے کیے۔ ایک فیصلہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں مجوزہ تبدیلیوں (جو سولر پینل والے لوگوں کو اضافی بجلی گرڈ کو فروخت کرنے کی اجازت دیتی ہیں) کو وزارت توانائی کے پاس نظرثانی کے لیے بھیجنا تھا جبکہ دوسرا فیصلہ ٹیکس چھوٹ کا دوبارہ نفاذ ہے جو یونیورسٹیز میں اساتذہ اور محققین کو دی گئی تھیں۔

یہ ٹیکس چھوٹ 2022ء کے بجٹ میں واپس لے لی گئی تھی لیکن لوگوں کو اس کے واپس لیے جانے کے بارے میں دسمبر 2024ء میں بتایا گیا۔

یہ دونوں معاملات مثالیں ہیں کہ پاکستان میں معاملات کو کس طرح چلایا جاتا ہے جن کی وجہ سے اکثر ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سولر پالیسی کے معاملے میں وزارت توانائی نے گزشتہ نیٹ میٹرنگ پالیسی جو درحقیقت ایک بڑی کامیابی تھی، اسے ناکامی قرار دیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ اس پالیسی سے صرف اشرافیہ مستفید ہورہی ہے اور یہ لوگ توانائی کے نظام پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے بل اتنے زیادہ آنے کی بنیادی وجہ یہی دباؤ ہے۔

یہ کامیابی کو دیکھنے کا غلط نظریہ تھا۔ کسی کے ذہن میں خیال آئے گا کہ بغیر کسی سرکاری خرچے کے سسٹم میں 7 ہزار 100 میگاواٹ بجلی شامل کرنا ایک مثبت امر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے لیکن وزارت توانائی نے کہا کہ 2 لاکھ 83 ہزار گھرانے نیٹ میٹرنگ پالیسی کا استعمال کررہے ہیں جبکہ یہ تعداد پاور گرڈ سے منسلک 4 کروڑ گھرانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی کا استعمال کرنے والے گھرانوں کی تعداد کو 4 کروڑ تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزارت توانائی کو جو سوال پوچھنا چاہیے تھا وہ یہ تھا کہ ’زیادہ سے زیادہ لوگوں میں اس پالیسی کا استعمال کیسے بڑھایا جائے؟‘ اس کے بجائے ان کے لیے اہم یہ تھا کہ ’ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں؟‘

ایسی ہی صورت حال ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے ساتھ ہوئی۔ ٹیکس چھوٹ واپس لینے سے کم آمدنی والا طبقہ متاثر ہوا جو پہلے ہی حکومت کی جانب سے اپنے بجٹ میں توازن قائم کرنے کی کوششوں میں پس رہے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس بیوروکریسی کئی سالوں سے کس طرح کام کررہی ہے۔

کاروباری حضرات کو ٹیکس حکام کے ساتھ اکثر برے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنے ساتھ اپنائے جانے والے ناروا سلوک کے حوالے سے قصے سناتے نظر آتے ہیں۔

ٹیکس چھوٹ کی بات کی جائے تو پنجاب کی یونیورسٹیز کو صوبائی حکومت کے محکمہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی ایک مخصوص شق جس میں اساتذہ اور محققین کے لیے ٹیکس چھوٹ فراہم کی گئی تھی، فنانس ایکٹ 2022ء میں ختم کردی گئی ہے۔ نوٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یونیورسٹیز کو گزشتہ دو سال کے ٹیکس (بقایا جات) ریکور کرنا ہوں گے۔

یہ واضح ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور محققین بالکل بھی ’اشرافیہ‘ کا حصہ نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان پر ٹیکس کا بل بم کی طرح پھینکا جاسکتا ہے تو وہ پریشان ہوئے کیونکہ اس بل کے بارے میں وہ پچھلے دو سالوں سے واقف بھی نہیں تھے۔ اگر ٹیکس چھوٹ کو 2022ء میں ہٹا دیا گیا تھا تو دسمبر 2024ء میں نوٹس دینے اور ٹیکس بقایا جات کا مطالبہ کرنے میں آخر اتنا وقت کیوں لگا؟

خوش قسمتی سے دانشمندانہ فیصلے کیے گئے۔ فوراً بعد خبریں سامنے آئیں کہ وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ حکومت عالمی ادارہ مالیات (آئی ایم ایف) سے ٹیکس چھوٹ برقرار رکھنے کی اجازت طلب کررہی ہے۔ گویا اب اجازت مل گئی ہے اور کابینہ نے کچھ قانونی کارروائی، آرڈیننس یا اسے بجٹ کے منی بل میں شامل کرکے بعد دوبارہ ٹیکس چھوٹ لانے پر اتفاق کیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں لائی گئی تھیں۔

ٹیکس چھوٹ بحال ہوگئی، سب ٹھیک ہوگیا لیکن ان حالات میں ہمارے سیکھنے کے لیے اہم سبق موجود ہیں۔ پہلا سبق وہ غلطی ہے جو وزارت توانائی نے نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں بیانات دینے میں کی۔ انہوں نے اپنی پالیسی کی کامیابی کا جشن منانے کے بجائے اس سے مستفید ہونے والوں کو ’بوجھ‘ قرار دیا۔

انہوں نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی جدید ترقی کو ایک ایسے مسئلے کے طور پر پیش کیا جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بجائے انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ’ہماری نیٹ میٹرنگ پالیسی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کے نتیجے میں صاف، سبز شمسی توانائی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ شمسی توانائی کی قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب حکومت اس بچت کو عوام تک پہنچانا چاہتی ہے اور یہ کام نظرثانی شدہ نیٹ میٹرنگ پالیسی، شمسی توانائی کی شرح کو پچھلے سال سے بڑے پیمانے پر کمرشل توانائی فراہم کرنے والے نرخوں کے امتزاج کے ساتھ کرے گی‘۔

پالیسی سازی میں ایک اہم اصول اپنی کامیابیوں کا کریڈٹ لینا ہوتا ہے۔ ان لوگوں پر تنقید نہ کریں جو آپ کی پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کی پالیسی سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اسے ملک کے لیے ایک مثبت چیز کے طور پر پیش کریں اور ایک سرسبز مستقبل کی طرف بڑھنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر جانیں۔

بدقسمتی سے اس معاملے میں پاور سیکٹر کے عہدیداران نے غلط مسئلے پر توجہ مرکوز کی۔ سولر پالیسی کی کامیابی کا جشن منانے کے بجائے انہوں نے وزیر توانائی سے بجلی کے نظام کی ’مقررہ لاگت‘ کے بارے میں بات کی اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کا ذمہ دار عوام کو ٹھہرایا۔ مگر یہ بجلی کے صارفین کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ گرڈ کے ان اخراجات کو پورا کریں یا نقصانات کو برداشت کریں بالخصوص جب ان کے پاس شمسی توانائی کی صورت میں بہتر متبادل دستیاب ہو۔

کابینہ اور آئی ایم ایف کا ٹیکس چھوٹ پر اتفاق کرنا خوش آئند اقدام تھا۔ تاہم اچانک انکشاف ہوا تھا کہ یہ چھوٹ ختم کردی گئی ہے اور یونیورسٹیز کو بھیجے گئے فوری نوٹسز ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکس بیوروکریسی کو کس طرح شکاری کلچر نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ وہ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ یہ نوٹس جاری کرکے ٹیکس وصولی کا مطالبہ کریں گے اور کوئی ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور اہلیت پر سوال نہیں اٹھائے گا؟ ٹیکس حکام کو حاصل استثنیٰ، حقیقی مسئلہ پیدا کرتی ہے۔

اب جبکہ دونوں مسائل حل ہوچکے ہیں تو فی الحال ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ متعلقہ سرکاری محکمہ جات کے حکام اس تجربے سے سبق حاصل کریں گے۔ ٹیکس دہندگان اور بجلی صارفین کو آسان ہدف سمجھ کر ہر بار پریشان کرنے کی یہ روش بند ہونی چاہیے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025