گمنام ہیرو
پاکستان کو خطرات سے بھرے جن حالات کا سامنا ہے، اس کے پیشِ نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سیکیورٹی اہلکار بدستور شدید خطرات کی زد میں ہیں لیکن ان میں سے سے بعض ایسے ہیں جنہیں دوسروں کے مقابلے میں خطرے کازیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ بات ملک کے اندر بالخصوص بم ڈسپوزل یونٹ پر صادق آتی ہے۔
پیر کو پشاور کے قریب دھماکا خیز مواد ناکارہ بنانے کے دوران بم ڈسپوزل یونٹ کے کم از کم چار اہلکاروں کی ہلاکت سے ظاہر ہے کہ اس محکمے میں کام کرنے والوں کے لیے خطرے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔
اگرچہ ہلاک ہونے والے یہ اہلکار پہلے ہونے والے دھماکے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے تھے، تاہم بم ناکارہ بنانے کے دوران اب تک بم ڈسپوزل یونٹ کے متعدد اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھوچکے ہیں، انہی میں گذشتہ برس بم ناکارہ بنانے کے دوران ہلاک ہونے والے حکم خان بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے کریئر کے دوران سیکڑوں بموں کو پھٹنے سے قبل ناکارہ بنادیا تھا۔
اس عمل کے دوران متعدد زخمی جب کہ بعض کو اپنے جسمانی اعضا سے بھی محروم ہونا پڑا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کی زندگیاں بچانے والے بم ڈسپوزل یونٹ کی خدمات کا نہ تو حکومت اور نہ ہی معاشرے نے اعتراف کیا نہ ہی ان کی کبھی ہمت بندھائی ہے۔
یہ سچ ہے کہ بم ڈسپوزل یونٹ بھی اس کا جزوی ذمہ دار ہے۔ مثال کے طور پر، یونٹ کے اہلکاروں کو جس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے پیشِ نظر، خطرے کی شدت کم کرنے کے لیے بم ناکارہ بنانے کے عمل میں روبوٹ کا استعمال ہے۔
تاہم یہ دیکھا گیا ہے کہ بم ناکارہ بنانے کے عمل میں اہلکار ہمیشہ روبوٹ کا استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی اس عمل میں طے شدہ حفاظتی معیار اور طریقہ کار پر عمل کیا جاتا ہے۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ جب یونٹ کے افسران و اہلکار میدان پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں تو اس ضمن میں تمام تر حفاظتی اقدامات پر بھرپور عمل ہونا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے ان کے معاملات، جیسے ہلاک شدگان کے لیے معاوضے وغیرہ کی کوششوں سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ مثال کے طور پر، سندھ اور پنجاب کے ہم منصبوں کے مقابلے میں، خیبر پختون خواہ کے بم ڈسپوزل یونٹ کو ملنے والا معاوضہ نہایت کم ہے۔
یہ اہلکار جان جوکھم میں ڈالنے والا مشکل ترین فرض سرانجام دیتے ہیں، ضروری ہے کہ خطرے کے پیشِ نظر اُن کا معاوضہ بھی شایانِ شان ہو۔
ساتھ ہی ریاست کو چاہیے کہ انہیں جس نوعیت کے خطرے کو سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں کمی کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور مہارتوں کو شامل کرکے، محکمے کو وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید بنائے۔ یہ بات ملک گیر سطح پر بم ڈسپوزل یونٹ پر صادق آتی ہے۔
جیسے پیر کو ہوا، ریاست کو چاہیے کہ ایسے واقعے کی صورت میں وہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کی نگہداشت کرے بلکہ مشکل وقت سے باہر نکلنے میں اُن کی بھرپور مدد کرے۔
سب سے زیادہ، یہ ہونا چاہیے کہ حکومت اور شہری، خطرے سے دوچار ان اہلکاروں کی ہمت افزائی کریں اور انہیں یہ بتادینا چاہیے کہ خود کو خطرے سے دوچار کر کے، دوسروں کو بچانے والوں کی کوششوں کا ہمیں بھرپور احساس ہے۔