پاکستان

پاک ہند تنازعات کے سب سے بڑے شکار

ان تنازعات میں سب سے زیادہ نقصان ان مچھیروں کا ہورہا ہے جو غلطی سے سمندری حدود پار کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں قید ہیں۔

پچھلے سال دسمبر کے دوران پاکستان جیل میں وفات پاجانے والے ایک نوجون ہندوستانی مچھیرے بھیکا لاکھا سیّال کی میت بالآخر پچھلے ہفتے کو ان کے وطن ان کے خاندان کے پاس بھیج دی گئی۔ان کی میت کی واپسی میں ہونے والی یہ تاخیر چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کی ترجیحات میں ان مچھیروں کے مسائل انتہائی نچلے درجے پر ہیں، جو غلطی سے اپنے ملک کی سمندری حدود سے آگے بڑھ کر دوسرے ملک کی سمندری حدود میں داخل ہوجاتے ہیں اور آخر میں ایک دوسرے کے ملکوں کی جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب جیل میں وفات پانے والے ایک مچھیرے کی میت کو سرحد پار بھجوانے میں تاخیر ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ایک اور ہندوستانی مچھیرے جن کا اس ماہ کی ابتداء میں وفات ہوئی تھی، ان کی میت کی اب تک وطن واپسی کی منتظر ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئر پرسن زہرہ یوسف محسوس کرتی ہیں کہ ان دونوں معاملوں کے حوالے سے واپسی کے عمل میں سستی کے لیے ہندوستان زیادہ ذمہ دار ہے۔

انہوں نے کہا ’’یہ لازماً ان خاندانوں کے لیے تکلیف دہ ہوگا، جن کے عزیز دوسرے ملک کی جیل میں وفات پاگئے ہوں اور انہیں میت حاصل کرنے کے لیے اس قدر انتظار کرنا پڑے۔ ہمارے ملکوں کے اندر بیوروکریسی ان معاملات کو انسانی ہمدردی کے نکتۂ نظر سے نہیں لیتی۔‘‘

اگر ایسی صورتحال میں جس کا کسی کی وفات سے تعلق ہے، اس مایوسی اور نہ ختم ہونے والے انتظار کو تصور وہی کرسکتا ہے جو زندہ ہو اور جو ایک نااہلی کے دائرے کا ایک حصہ ہو۔

زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ ’’اچانک ایک ملک کے اندر ہمدردی کے جذبات جاگ اُٹھتے ہیں اور وہ دوسری جانب سے قیدیوں کے بدلے میں کچھ قیدیوں کو رہا کردیتا ہے۔‘‘

لیکن اس وقت ہندوستان اور پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے مچھیروں کی بڑی تعداد کو پکڑا گیا ہے اور وہ اس وقت قید میں ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان میں قید مچھیروں کی تعداد کے حوالے سے اعدادوشمار میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

ہندوستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قونصلر کی رسائی کے معاہدے کے تحت قیدیوں کی فہرستوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی جیلوں میں 230 سے زیادہ ہندوستانی مچھیرے قید ہیں، جبکہ اس میں ہندوستانی جیلوں میں قید پاکستانی مچھیروں کی تعداد 140 بتائی گئی ہے، این جی اوز اس تعداد سے اختلاف کرتے ہوئے حوالہ دیتی ہیں کہ اصل تعداد 245 ہے۔

اس معاملے پر ایک دو طرفہ معاہدے کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نفرت کی طویل تاریخ کو اجازت ملی ہے۔

دونوں ملکوں کے ان غریب مچھیروں کی برادری کے پاس نہ تو رقم ہے اور نہ ہی کوئی روابط۔

جب وہ بھٹک کر ایک اجنبی علاقے میں پہنچتے ہیں تو انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے، اور ان پر مختلف قوانین کے تحت الزامات عائد کردیے جاتے ہیں۔

ان میں یہ الزامات شامل ہوسکتے ہیں، پاکستان کے اندر ایکسکلوسیو فشری زون (ریگولیشن آف فشنگ) ایکٹ 1975 اور میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ایکٹ، جبکہ ہندوستان میں پاسپورٹ ایکٹ 1967ء اور دونوں ملکوں میں فارنرز ایکٹ 1946ء ۔

جب سزا سنادی جاتی ہےتو انہیں اپنی رہائی کے لیے بہت سال انتظار کرنا پڑتا ہے، اکثر کے لیے کافی وقت گزرجاتا ہے اور وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اور انہیں اپنی کشتیوں کی حوالگی کی فکر ہوتی ہے، جنہیں گرفتاری کے وقت قبضے میں لے لیا گیا ہوتا ہے، اور جو ان کی روزی کے حصول کاواحد ذریعہ ہوتی ہیں۔ان میں سے کچھ جب اپنے گھر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں اپنی زندگی کی نئے سرے سے شروعات کرنے میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے۔

کچھ سال پہلے قائم کی گئی ایک مشترکہ جیوڈیشل کمیٹی کی سفارشات کے باوجود، اپنے ہی شہریوں کی رہائی کے لیے کسی حکومتی اقدام کے ذریعے بہت معمولی سی دلچسپی ظاہر کی گئی۔اور یہ معاملہ شہریوں کے گروپس اور این جی اوز کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

پچھلے سال پاکستان فشرفوک فورم (پی ایف ایف) اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر) نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں ہندوستانی جیلوں میں قید پاکستان مچھیروں کو قانونی درجہ دینے اور ان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے فعال اقدامات میں ناکامی کے سلسلے میں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

حکومت جانتی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ پائیلر اور پی پی ایف کے وکیل راحیل کامران شیخ کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے، لیکن اس نے کسی قسم کی تفصیل فراہم نہیں کی کہ قونصلر کی رسائی کے معاہدے پر کس حد تک عملدرآمد کیا گیا، جس پر پاکستان اور ہندوستان کے وزیروں نے 2012ء میں اپنی ملاقات کے دوران رضامندی ظاہر کی تھی۔ کیا ایک دوسرے کی سمندری حدود کو پار کر جانے والے مچھیروں کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

قانونی اور سیاسی معاملات میں پھنسے ہوئے لوگ اکثر ان خاندانوں کو فراموش کردیتے ہیں، جن کا کوئی عزیز زندہ یا مردہ کھوگیا ہے۔ پی پی ایف کے چیئر پرسن اور ورلڈ فورم فار فشر پیپلز کے جنرل سیکریٹری محمد علی شاہ وضاحت کرتے ہیں کہ کیسے یہ خاندان جذباتی، سماجی اور معاشی غرض ہر سطح پر متاثر ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ مچھیرے ہندوستان پاکستان کے درمیان جاری تنازعات کا سب سے بڑا شکار ہیں۔‘‘