پاکستان

ایف بی آر نے لگایا چالیس جعلی کمپنیوں کا سراغ

ان جعلی کمپنیوں کے فرضی پتوں پر رجسٹریشن کرواکے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

اسلام آباد: ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے 40 فرضی کمپنیوں کا پتہ لگایا ہے، جنہوں نے حکام کی ملی بھگت کے ذریعے غیرقانونی سیلز ٹیکس ری فنڈ اور ان پُٹ ایڈجسٹمنٹ میں لاکھوں روپے حاصل کیے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کمپنیوں کو ٹیکس اسٹاف نےفراہم کیے گئے پتہ کی تصدیق کیے بغیرانہیں رجسٹر کرلیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کراچی کےعلاقے لیاری اور نارتھ ناظم آباد سے تعلق رکھتی ہیں۔

سرکاری تخمینوں سے انکشاف ہوا ہے کہ اوسطاً ہر کمپنی نے فریبی دعووں کے ذریعے تین کروڑ روپے حاصل کیے۔ ان کمپنیوں نے جعلی رسیدیں یا فلائنگ انوائسز بھی ان مقاصد کے لیے استعمال کیں۔

بہت سی کمپنیاں جو کوئی کاروبار نہیں کرتیں، جعلی رسیدیں جاری کرتی ہیں۔ اس کے بعد وہ مال پر ایک پیسہ خرچ کیے بغیر سیلز ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے خام مال کے لیے ری فنڈکا دعویٰ کرتی ہیں۔

دیگر کمپنیاں فلائنگ انوائسز کا استعمال کرتے ہوئے خام مال کو ظاہر کرکے جعلی ری فنڈ کا دعویٰ کرتی ہیں۔

جعلی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے ذریعے ملک کے اہم شہروں بالخصوص کراچی میں تیزی سے رقم بٹورنا اب بہت آسان ہوگیا ہے۔ لیکن ایف بی آر کی جانبدارانہ ردّعمل کی وجہ سے ان کی بلیک لسٹنگ یا ان کی رجسٹریشن کی معطلی بہت محدود پیمانے پر ہوئی ہے۔

ڈان کو میسر آنے والی سرکاری دستاویزات سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہر فرضی کمپنی کی فائل میں ایک جعلی فزیکل تصدیق کی رپورٹ شامل ہے، مثال کے طور پر ان میں سے ایسا ایک کیس رحمت ٹیکسٹائل کا بھی ہے، جو ریجنل ٹیکس آفس ون کراچی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

تاہم بعد میں ایف بی آر نے ہی یہ انکشاف کیا کہ رحمت ٹیکسٹائل کا تعلق حقیقی کاروبارسے نہیں ہے، اس لیے کہ اس کو جعلی ایڈریس پر رجسٹر کرایا گیا تھا اور یہ جعلی انوائسز پر ری فنڈ کے دعووں میں ملؤث تھی، جس سے قومی خزانے نقصان پہنچایا گیا تھا۔

پچھلے سال 22 اپریل کو رحمت ٹیکسٹائل کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن معطل کردی گئی۔ لیکن نہ تو کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کمپنی نے جعلی ری فنڈ کلیم کے ذریعے جو رقم حاصل کی تھی اس کی واپس کے لیے کوئی انکوائری کی گئی۔ جبکہ اس کمپنی کی فرضی پتے پر رجسٹریشن کرنے کے ذمہ دار افسر کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔

پچھلے سال مارچ میں کراچی کے آر ٹی او ٹو نے ایف بی آر سے سفارش کی تھی کہ ایسی چھبیس کمپنیوں کی رجسٹریشن کو منسوخ کردیا جائے۔

ذرائع کے مطابق ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کراچی نے بھی فرضی پتوں پر رجسٹر کی گئی کئی جعلی کمپنیوں کا سراغ لگایا تھا، ان میں سے ایک مثال کے طور پر میسرز میشول تھی۔ لیکن اس کمپنی کے خلاف زیادہ سے زیادہ رجسٹریشن منسوخ کرنے کے سوا کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ایف بی آر کے ترجمان اور ان لینڈ ریونیو کے رکن شاہد حسین اسد نے تصدیق کی کہ فزیکل تصدیق کسی کمپنی کی رجسٹریشن کے لیے لازم ہے۔ لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ قواعد و ضوابط کو مناسب طریقے سے لاگو نہیں کیا جارہا ہے۔

ایک کاروباری شخصیت نے ڈان کو بتایا کہ لاکھوں کو چھوڑیے یہاں تو اربوں روپے جعلی کمپنیوں کو ادا کردیے گئے، جبکہ حقیقی کمپنیوں کی جانب سے جمع کرائے گئے ری فنڈ کلیم پچھلے کئی مہینوں سے روک کر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان بیڈ ویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلٰی شبیر احمد نے کہا کہ حقیقی کمپنیوں کے کلیم کو چھوڑ کر وہ اربوں کے پیچھے دوڑ گئے۔

شبیر احمد نے بتایا کہ وہ اور ان کی ایسوسی ایشن کے دیگر اراکین وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’لیکن مجھے حیرت ہے کہ اگر اسحاق ڈار کے پاس ملک کے حقیقی ایکسپورٹرز کے لیے وقت ہوگا۔‘‘