پاکستان

تعلیمی بجٹ کا استعمال ایک بڑا مسئلہ

انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی بجٹ میں اضافے کے باوجود اس کا بڑا حصہ خرچ نہیں ہورہا ہے۔

اسلام آباد: اگرچہ عوام کے مسلسل مطالبے پر صوبوں نے اپنے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا ہے، تاہم اس فنڈز کا درست استعمال بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ مالی سال 2014-13ء میں مختص کیے گئے بجٹ کا ایک بڑا حصہ باقی بچ گیا تھا۔

یہ بات منگل کو انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس (آئی-ایس اے پی ایس) کی جانب سے الف اعلان کے تعاون سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بیان کی گئی، اس رپورٹ کا عنوان تھا ’’پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں سرکاری سرمایہ کاری‘‘۔

اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2013-14ء کے دوران سندھ نان سیلری بجٹ کا صرف 47 فیصد اور ترقیاتی بجٹ کا 37 فیصد حصہ ہی خرچ کرسکا ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا نے نان سیلری بجٹ کا صرف 59 فیصد حصہ اور ترقیاتی بجٹ کا صرف 50 فیصد خرچ کیا ہے۔ بلوچستان نان سیلری بجٹ کا 27 فیصد اور ترقیاتی بجٹ کا 48 فیصد خرچ نہیں کرسکا ہے۔

تاہم پنجاب بجٹ کے استعمال کے لحاظ سے سرِفہرست ہے، اس لیے کہ اس نے اپنے نان سیلری بجٹ کا 83 فیصد اور ترقیاتی بجٹ کا 89 فیصد خرچ کردیا ہے۔

اس رپورٹ کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے فیڈرل ایجوکیشن اور پروفیشنل ٹریننگ محمد بلیغ الرحمان نے کہا کہ اس رپورٹ نے حکومت کو تعلیمی اعدادوشمار پر ایک واضح تصویر پیش کی ہے، اور شہادتوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والے نتائج ایک مناسب نظام کی تیاری میں مدد کرسکتے ہیں۔

انہوں نے اس تقریب کے شرکاء کو بتایا کہ ملک میں 35 فیصد پرائمری اسکول ٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح اب تک کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسکول سے باہر رہنے والے بچوں کی تعداد میں بھی پچھلے چند سالوں میں کمی آئی ہے۔

آئی-ایس اے پی ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سلمان ہمایوں نے کہا کہ ایک جانب تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ایک اچھی خبر تھی، لیکن اس کو تعلیمی نظام کی کارکردگی سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ تعلیمی بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی نذر ہوجاتا ہے، جبکہ ترقیاتی بجٹ کا ایک اہم حصہ خرچ نہیں ہوپاتا۔

انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنس کے ایک ریسرچ فیلو احمد علی کا کہنا تھا کہ وسائل کے مختص کیے جانے کے باوجود تعلیمی معیار پست ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے تینوں صوبوں نے مفت لازمی تعلیم کے لیے قانون سازی کی تھی۔

تاہم پنجاب، بلوچستان اور اسلام آباد اب تک آئین کے آرٹیکل 25-اے پر مناسب عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں، جس میں پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا تو اب تک اس سلسلے میں قانون سازی کو منظور کرنے میں ہی ناکام رہا ہے۔

سندھ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین خورشید احمد جونیجو کا کہنا ہے کہ اس نظام میں ساختیاتی مسائل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں تقریباً بیس ہزار اسکول ٹوائلٹ سے محروم ہیں، جبکہ 23 ہزار اسکولوں میں بجلی اور پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے تعلیمی مشیر نصراللہ خان زائری نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اسکول سے باہر بچوں کے داخلے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 25-اے کے تحت نئے قوانین پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

پنجاب میں قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین قمر الاسلام راجہ نے وڈیو لنگ کے ذریعے بات کرتے ہوئے صوبے میں درپیش تعلیمی چیلنجز کے سلسلے میں حساس مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔