پاکستان

قومی اسمبلی: فاٹا انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور

جمعیت علمائے اسلام(ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے فاٹا کے خیبرپختونخوا سے انضمام سے متعلق بل کی مخالفت کی۔
| |

اسلام آباد: وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں منظور کرلیا گیا۔

وزیرِ قانون محمود بشیر ورک کی جانب سے مذکورہ بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد پیش کیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔

قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

فاٹا کے انضمام کے بل کے نتائج مثبت ہوں گے، وزیرِاعظم

اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج قومی اسمبلی نے جو بل پاس کیا ہے اس کے نتائج پاکستان کے لیے بہت مثبت ہوں گے اور میں اپوزیشن کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے حوالے سے ڈھائی سال پہلے ایک کمیٹی بنی جس کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا اور ایک بل بنا، جو آج سب کے سامنے آیا ہے، میں اس بل پر خورشید شاہ، فاروق ستار کا مشکور ہوں جنہوں نے بل پر رائے دی۔

انہوں نے کہا کہ آج اس ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن نشستوں نے مل کر اس بل کو پاس کیا، لیکن مجھے افسوس ہے کہ جو تقریر ہوئی اس میں ایسی باتوں کا ذکر کیا گیا جس کی آج ضرورت نہیں تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، جس سے تنازعات کا پہلو سامنے آئے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسی کو منی لانڈرر کہنا اخلاقی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے، خاص طور پر اس دن جب ایوان نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، اس دن ایسی متنازع بات کو سامنے لانے کی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ مذکورہ بل کی وجہ سے پاکستان میں عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے، اور یہ وقت پر ہی منعقد کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں بلدیاتی، صوبائی انتخابات کی بھی بات رکھی گئی، اس کے علاوہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے متعلق بھی بات موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد فاٹا میں جو ترقیاتی کاموں کی کمی ہے، اسے دور کیا جائے اور اس بل میں یہ بات رکھی گئی تھی کہ ہم نے فاٹا کے لوگوں کو وہی سب چیزیں دینی ہیں جو پاکستان کے دیگر لوگوں کو میسر ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج ایوان نے یہ ثابت کیا کہ قومی معاملات پر یکجہتی ہوسکتی ہے لہٰذا جو بھی قومی معاملات ہیں انہیں مل کر ہی حل کرنا چاہیے۔

آج پاکستان کی جیت ہوئی ہے، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی بہت بڑی جیت ہوئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جب پاکستانی قانون کا اطلاق ہوگا تو اس میں مشکلات آئیں گی، تاہم فاٹا بل منظور کرکے قبائلی عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا قابلِ قبول تجویز نہیں ہے، کیونکہ یہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کروا کر ان کو اختیارات دے کر وہاں ترقی کی جائے لیکن یہ آسان نہیں ہوگا، اس کی مخالفت کی جائے گی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک بہت زبردست قدم لے رہا ہے لیکن اس میں مشکلات آئیں گی، جس سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی بنانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو اپنے ملک کے وزیرِاعظم سے منی لانڈرنگ کے کیس میں یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آیا اور ملک سے باہر کیسے گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا ضمیر واضح ہے کہ میں لوگوں کے مفاد میں کھڑا ہوا، لیکن میں اراکینِ اسمبلی سے پوچھتا ہوں کہ جو منی لانڈر کی حمایت کر رہے تھے کیا ان کا ضمیر ٹھیک تھا‘۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہاں ایک رکن اسمبلی نے بیٹھ کر مجھے کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے لیکن آج وہ رکنِ اسمبلی یہاں موجود ہی نہیں ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے فخر ہے کہ ہم نے جدو جہد کی جس میں ہم کامیاب ہوئے اور ایک بدعنوان وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا‘۔

بھاری اکثریت سے بل منظور ہونے پر خوشی ہے، پیپلز پارٹی

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ آج فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل منظور ہونا پاکستان کے لیے بہت بڑا دن ہے اور خوشی ہے کہ یہ بل بھاری اکثریت سے منظور ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نوید قمر نے فاٹا بل کی منظوری کو پاکستان کی تاریخ میں اہم سیاسی سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی نے کالونی کے نظام کو فاٹا سے ختم کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا بل منظور ہونا پاکستان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی مخالفت

فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے حوالے سے بل پر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے اراکین نے مخالفت کی اور اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا، جبکہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی بلال رحمٰن نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔

اس دوران انتہائی جذباتی انداز میں تقریر کرتے ہوئے فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکنِ قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے الزام عائد کیا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی جو اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کی وجہ سے انہیں فنڈز ملنا مشکل ہوجائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو فاٹا کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کی مخالفت کرتے رہے ہیں، ان کے چہرے آج پارلیمنٹ میں سب کے سامنے آگئے۔

شاہ جی گل آفریدی کا مزید کہا کہ جو لوگ اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے کبھی اس علاقے کا دورہ ہی نہیں کیا کہ یہاں پر لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی قربانی دی ہے۔

ادھر جمیعت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی نے اپنی تقریر کے دوران آج کے دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان کے آئین سے ’فاٹا‘ کا لفظ نکالنے والی ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ فاٹا کو بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکنِ اسمبلی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے ایک دوسرے کو سرِ عام گالیاں نکالیں لیکن آج فاٹا کے عوام کے حقوق کا استحصال کرنے کے لیے دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملالیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہونے کی صورت میں ملک کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایم کیو ایم کا 19 صوبے بنانے کا مطالبہ

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب، ہزارہ اور فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا جبکہ ملک میں انتظامی بنیادوں پر 19 صوبے بنانے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کی حمایت قومی اتحاد کے تناظر میں کر رہی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق اپنے موقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رکنِ اسمبلی کی جانب سے جب کراچی سمیت ملک میں مزید 19 صوبے بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو اس وقت ان کی پیپلز پارٹی کے اراکینِ اسمبلی سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے خبردار کیا کہ اگر کراچی میں پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو کراچی میں عدم برداشت کی فضا پھیل جائے گی۔

انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا تو مستقبل میں اسے علیحدہ صوبہ بنانا مشکل ہوجائے گا۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔

سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔

فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔