کھیل

کرکٹ سے سیاست میں قدم رکھنے والے بڑے کرکٹرز

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ ساتھ دنیا کے متعدد کرکٹرز نے سیاست میں بھی کامیابیاں حاصل کیں۔

تحریک انصاف کی عام انتخابات 2018 میں شاندار کامیابی کے ساتھ ہی وہ پہلی مرتبہ وفاق میں حکومت بنانے میں پوزیشن میں آ گئی ہے اور پارٹی چیئرمین عمران خان ممکنہ طور پر اگلے وزیر اعظم پاکستان ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی ایک کرکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے عمران خان عالمی کپ جیتنے والے کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم بننے کا منفرد اعزاز حاصل کر لیں گے۔

تاہم عمران پہلے کرکٹر نہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں بھی قدم رکھا بلکہ ان سے قبل اور ان کے بعد بھی متعدد کرکٹرز نے کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد سیاسی میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

ایلک ڈگلس ہوم

ایلک ڈگلس ہوم برطانیہ کے واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے 1920 کی دہائی میں 6مختلف ٹیموں سے 10 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جبکہ ایم سی سی کے دورہ جنوبی امریکا کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔

انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن انہیں ایک موثر سوئنگ باولر سمجھتے تھے اور وزیر اعظم کا منصب چھوڑنے کے بعد 1966 میں ڈگلس ایم سی سی کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔

ارجنا رانا ٹنگا

سری لنکا کو 1996 کا عالمی کپ جتوا کر دنیا کو حیران کر دینے والے کپتان ارجنا راناٹنگا نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔

ارجنا رانا ٹنگا پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نسیم اشرف کے ساتھ— فائل فوٹو: اے ایف پی

کامیاب کپتان اور بلے باز رہنے کے ساتھ رانا ٹنگا کا سیاسی سفر بھی کامیابی سے جاری ہے اور انہوں نے ملک کے کئی اہم مناصب پر اپنی خدمات انجام دیں اور حال ہی میں وہ ملک کے نائب وزیر سیاحت کی خدمات انجام دے رہے تھے۔

سنتھ جے سوریا

1996 میں سری لنکا کو ورلڈ کپ جتوانے والے اہم اراکین کی بات کی جائے تو اروندا ڈی سلوا کے بعد دوسرا نام سنتھ جے سوریا کا نام ذہن میں آتا ہے جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے دنیا کے تمام باؤلنگ اٹیک کے چھکے چھڑا دیے۔

اپنے کپتان راناٹنگا کی طرح جے سوریا نے بھی سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنے جہاں 2010 میں وہ اپنے آبائی علاقے متارا سے ایم پی بنے۔

سنتھ جے سوریا بیٹنگ پریکٹس کر رہے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

سیاست کے بل بوتے پر جے سوریا نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور 2011 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی سری لنکن ون ڈے ٹیم میں منتخب ہو گئے تاہم کرکٹ کے میدان میں بھی اپنی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہ رہے اور ایک ون ڈے میچ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔

سر ویزلے ہال

1960 میں بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب تصور کیے جانے والے ویسٹ انڈیز کے ویزلے ہال نے ٹیسٹ کرکٹ میں 192وکٹیں حاصل کیں اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔

سر ویزلے ہال سابق ویسٹ انڈین باؤلر کورٹنی واش کے ساتھ

انہوں نے بارباڈوس سینیٹ اور اسمبلی دونوں میں خدمات انجام دیں جبکہ 1997 میں وہ جزیرے کے وزیر سیاحت بنے۔ بعدازاں وہ چرچ منسٹر بنے اور پھر 2012 میں نائٹ بن گئے۔

چارلس برگس فرائی

چارلس برگس فرائی دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے متعدد کھیلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور انگلینڈ کے لیے کرکٹ کے ساتھ ساتھ فٹبال کے میدان میں بھی نظر آئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے رگبی اور لانگ جمپ میں بھی شرکت کی اور مبینہ طور پر انہیں البانیہ کی بادشاہی کے تاج کی بھی پیشکش کی گئی تھی۔

اپنی زندگی میں انہوں نے نیول اکیڈمی چلانے کے ساتھ ساتھ اسپورٹس میگزین بھی نکالا اور سیاسی میدان میں آمد کے بعد تین مرتبہ پارلیمنٹ تک رسائی کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

منصور علی خان پٹودی

منصور علی خان پٹودی کا شمار بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں ہوتا ہے اور وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر بھی تصور کیے جاتے تھے۔

انہوں نے 1971 اور پھر 1991 میں عام انتخابات میں شرکت کی لیکن دونوں مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یوں وہ سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

محمد اظہرالدین

47ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی قیادت کا اعزاز رکھنے والے محمد اظہر الدین کا شمار ہندوستان کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے اور ان کی زیر قیادت بھارت نے متعدد اہم فتوحات حاصل کیں۔

2000 میں میچ فکسنگ اسکینڈل پر ان پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جس کے ساتھ ہی ان کا انٹرنیشنل کیریئر اختتام پذیر ہو گیا اور انہوں نے سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔

بھارت کے سابق کپتان محمد اظہر الدین پاکستان کے سابق آمر و صدر پرویز مشرف کے ہمراہ— فائل فوٹو: رائٹرز

2009 میں وہ کانگریس کا حصہ بنے اور اسی سال انتخابات میں مرادآباد سے سیٹ جیت کر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔

اس کے علاوہ ونود کامبلی، کیرتی آزاد، جان آرلٹ، ٹیڈ ڈیکسٹر، جان میجر اور نوجوت سنگھ سدھو سمیت متعدد کرکٹرز نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ملی جلی کامیابیاں حاصل کیں۔

تاہم کرکٹ سے ہٹ کر ایک کھلاڑی ایسا بھی ہے جس نے کھیلوں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنے ملک کا صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

جیورج ویاہ

جیورج ویاہ کی قسمت اس وقت بدلی جب آرسینے وینگر نے 21سالہ فٹبالر کو کیمرون کے لیے کھیلتے ہوئے دیکھا اور انہیں یورپ لے کر آ گئے اور انہوں نے اے ایس موناکو کی ٹیم کو جوائن کیا۔

جیورج ویاہ کو 1995 میں بیلن ڈی اور دیا گیا

اس کے بعد انہوں نے فٹبال کی دنیا کے نامور کلبوں جیسے پیرس سینٹ جرمین، چیلسی، مانچسٹر سٹی اور اولمپک مارسیلی کے لیے خدمات انجام دیں اور اپنے شاندار کھیل سے شائقین کے دل جیت لیے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ جیورج فیفا ورلڈ پلیئر آف دی ایئر اور 1995 میں بیلن ڈی اور جیتنے والے اب تک واحد افریقی کھلاڑی ہیں۔

تاہم وہ اپنے آبائی ملک کو نہ بھولے اور کھیکل سے کنارہ کشی کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھتے ہوئے 2005 کے عام انتخابات سے قبل کانگریس فار ڈیموکریٹک چینج پارٹی بنائی اور ان کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تاہم تعلیم مکمل نہ ہونے کے سبب وہ ناکام ہو گئے۔

جیورج ویاہ نے گزشتہ سال لائبیریا کا منصب صدارت سنبھالا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

2007 میں انہوں نے اپنا ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد فلوریڈا سے گریجویشن کیا اور 2014 میں سینیٹر منتخب ہو گئے۔

2016 میں انہوں نے دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس مرتبہ فتح نے ان کے قدم چومے اور وہ دسمبر 2017 میں صدر منتخب ہوئے اور اس وقت لائبیریا کے صدر ہیں۔