پاکستان

'فضل الرحمٰن کی دی گئی مہلت ختم ہونے سے قبل کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے'

اپوزیشن کے کوئی خاص مطالبات ہوں تو مذاکرات ہوسکتے ہیں،وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر بات نہیں ہوسکتی، شفقت محمود

اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت کا جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو استعفے کے لیے دی گئی 2 روزہ مہلت ختم ہونے سے قبل اپوزیشن سے مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اور وزیراعظم کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی کے رکن شفقت محمود نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے خطاب کے بعد ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے مذکورہ بیان دیا۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے دھرنے سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کا اجلاس بنی گالا میں طلب کرلیا۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے معاہدے میں طے کیے گئے مقام پر اپنا جلسہ منعقد کیا اور اب تک انہوں نے ڈی چوک یا کسی اور مقام کی جانب بڑھنے سے متعلق کوئی اعلان نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ وہ دو روز کے بعد اگلا فیصلہ کریں گے اور ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر وہ وہاں 2، 3 یا جتنے مرضی دن بیٹھے رہیں۔

وزیر تعلیم نے کہا کہ 'جب اپوزیشن اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرلے گی اور اس فیصلے سے اگر کوئی نئی صورتحال سامنے آتی ہے تو ہم بھی اپنے لائحہ عمل کو حتمی شکل دے دیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے اگلے پلان کے اعلان سے قبل حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ کسی مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

تاہم شفقت محمود نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اراکین سے رابطے میں ہیں۔

ساتھ ہی وزیر تعلیم نے کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں کوئی قابل ذکر بات نہیں کی۔

شفقت محمود کا کہنا تھا کہ حکومت کا اپوزیشن سے صرف جلسے کے مقام کا معاہدہ ہوا تھا جس میں اپوزیشن نے اتفاق کیا تھا کہ وہ جلسے کے لیے مختص جگہ سے آگے نہیں بڑھیں گے اور جب تک وہ وہاں رہیں گے حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کا جے یو آئی کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے مذاکرات اس وقت ہوسکتے ہیں جب ان کے کوئی خاص مطالبات ہوں، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو دہرا دیا کہ وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر مذاکرات نہیں ہوسکتے۔

شفقت محمود نے اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے تقاریر اور انٹرویوز میں کیے جانے والے 2 مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'دو معاملات وزیراعظم کا استعفیٰ اور نئے انتخابات پر مذاکرات نہیں ہوسکتے'۔

ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے معمولات زندگی کو متاثر کرنے پر تنقید کی اور اپوزیشن کی ریلی کے باعث ان دونوں شہروں میں تعلیمی اداروں کی بندش پر افسوس کا اظہار کیا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کو سڑکوں کی بندش اور ٹریفک کے متبادل روٹس کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل کا احساس ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ وہ اپوزیشن سے مطمئن ہیں کیونکہ انہوں نے حکومت اور مقامی انتظامیہ سے کیے گئے معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی نہیں کی۔

علاوہ ازیں حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن کو ریڈ زون میں ڈی-چوک کی جانب پیش قدمی سے خبردار کیا اور کہا کہ کہ اگر اپوزیشن نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی حکمت عملی

دوسری جانب اپوزیشن کے سینئر رکن نے دعویٰ کیا کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے ڈی چوک کی جانب پیش قدمی کا لائحہ عمل طےکیا ہے جو دھرنے کے مقام سے تقریباً 13 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے آج ( 2 نومبر) ریڈ زون کی جانب نئے مقام پر منتقل ہونے کا ارادہ کیا ہے۔

فردوس عاشق اعوان کی اپوزیشن پر تنقید

ادھر سرکاری خبررساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی ) نے رپورٹ کیا کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ ٹوئٹس کیں اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ' جنرل جیلانی کی پیوندکاری سے اداروں کی حمایت کے شکوے باعث تعجب ہیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ'شہباز صاحب جس قدر اس ملک کے نظام اور اداروں نے آپ کی حمایت کی اس کی نظیر نہیں ملتی مگر آپ نے ہمیشہ ان کی پیٹھ پر چھرا گھونپا اور قومی مفاد کے منافی عمل کیا'۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ 'مودی سے پگڑیاں تبدیل کیں اور جندال کو مری کی سیر کروائی، آج آپ ملک کو سیاسی عدم و استحکام سے دوچار کرنے کی گھناؤنی سازش کر رہے ہیں'۔


یہ خبر 2 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی