پاکستان

حکومت، استعفے کے سوا اپوزیشن کے تمام مطالبات پر مذاکرات کیلئے تیار

وزیراعظم اپوزیشن جماعتوں کودی جانے والی رعایت کے فیصلے کے لیے آج پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔

وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ڈی چوک اور ریڈ زون کی جانب مارچ نہ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے وزیراعظم عمران خان کے استعفے کے سوا اپوزیشن کے تمام مطالبات مذاکرات کے ذریعے پورے کیے جاسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مذہبی امور کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ’ہم مولانا کو فیس سیونگ دینے کے لیے تیار ہیں‘۔

تاہم اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے دوہری پالیسی اختیار کی ہوئی ہے کیوں کہ ایک جانب جہاں فردوس عاشق اعوان نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے فیصلے کو سراہا وہیں انہیں ’ریاست کی رٹ چیلنج کرنے‘ اور مذہبی کارڈ استعمال کر کے ملک کا ترقی پسند اور روشن خیال تصور خراب کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: یہاں سے پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن

پریس کانفرنس میں ڈاکٹر فردوس عاشق کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم مذاکرات کے ذریعے اپوزیشن کے جمہوری مطالبات تسلیم کرنے کے لیے پر عزم ہیں‘ اور اپوزیشن جماعتوں کو رعایت دینے کے فیصلے کے لیے آج پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کریں گے۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات نے 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے پر سراہتے ہوئے کہا کہ ’اختلافات کے باوجود دونوں پارٹیوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا بیانیہ مسترد کرکے نئی مثال قائم کردی‘۔

دوسری جانب اسی پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے وزیراعظم عمران خان پر احمدیوں کے حوالے سے لگائے گئے الزام کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ہمیشہ وزیراعظم کی حمایت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ نبی کریمﷺ سے محبت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'دہائیوں سے مسلط افراد کو اپنی تیسری نسل کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آرہا ہے'

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں کو قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) جیسی رعایت نہیں دیں گے۔

وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی مزید سخت

ادھر سیکیورٹی حکام نے رکاوٹیں اور سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کر کے اسلام آباد کا ریڈ زون سیل کردیا جہاں سپریم کورٹ اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں موجود ہیں۔

اس سلسلے میں بنی گالا اور ریڈ زون کے اطراف میں پولیس، رینجرز اور فرنٹیئر کور کے 2 ہزار اہلکار تعینات کردیے گئے، اس کے علاوہ لاہور اور خیبرپختونخوا سے اضافی 3 ہزار اہلکار طلب کیے گئے ہیں جبکہ سیکیورٹی انتظامات کو سخت بنانے کے لیے واٹر کینن اور بکتر بند گاڑیاں بھی منگوائی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں صرف وفاقی دارالحکومت میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ گئی ہے جن کے پاس ابھی 10 بکتر بند گاڑیاں، 3 واٹر کینن اور قیدیوں کی منتقلی کی 10 گاڑیاں بھی موجود ہیں۔

بنگلہ دیش: نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ضمانت مل گئی

مطالبہ ایک ہے لیکن پیپلزپارٹی دھرنے میں شریک نہیں ہوگی، بلاول بھٹو

پیر میں 9 انگلیوں سے پریشان نوجوان کی زندگی بدل دینے والی سرجری