پاکستان

خیبرپختونخوا میں قرنطینہ مراکز کے فضلے سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ

محکمہ صحت کو کورونا وائرس کے فضلے اور پی پی ای سے متعلق گائیڈ لائنز موصول ہوئی تھیں تاہم ان کو نظرانداز کیا گیا، رپورٹ

پشاور: ماہرین کے مطابق قرنطینہ مراکز، آئی سولیشن سینٹرز اور ہسپتالوں اور کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے صحت ورکرز کی جانب سے استعمال کیے جانے والی حفاظتی کٹس سے وائرس کے مقامی آبادی میں پھیلاؤ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے صوبائی حکومت نے وفاقی وزارت صحت کی جانب سے 2 ماہ قبل جاری کیے گئے معیاری کام کے طریقہ کار (ایس او پیز) کو نافذ کرنا ہے تاکہ فضلے کے مراکز سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس او پیز کورونا وائرس کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں جو تمام صوبوں کو 2 ماہ قبل دیے گئے تھے جب ملک میں کوئی تصدیق شدہ کیس سامنے نہیں آیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا ڈاکٹرز کو فوری حفاظتی کٹس کی فراہمی کا حکم

خیبر پختونخوا میں حفاظتی کٹس (پی پی ای) کو ٹھکانے لگانے کے مناسب طریقہ کار کا فقدان ہے جنہیں میونسپل کے فضلے کی طریقے سے ٹھکانے لگایا جارہا ہے جبکہ انہیں ڈسپوز کرنے کی واضح گائیڈ لائنز موجود ہیں۔

صحت کے عہدیداروں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ حیات آباد اور حسن گڑھی جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں تصدیق شدہ کیسز اپنے گھروں میں آئی سولیشن میں ہیں لیکن وہاں سے آنے والے کوڑے دانوں کو صحیح طریقے سے نہیں اٹھایا جارہا جو محلوں کے لیے ایک بم ثابت ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ صوبے کے دارالحکومت پشاور میں ہورہا ہے جبکہ دیگر اضلاع کی صورتحال مزید تشویش ناک ہے‘۔

نہوں نے کہا کہ لوگ استعمال شدہ کٹس اور دیگر پی پی ایز گلیوں میں پھینک رہے تھے یہاں تک کہ ہسپتالوں نے بھی پروٹوکول پر عمل نہیں کیا۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ایس او پیز کا مقصد ہیلتھ ملازمین، عوام اور ماحول کو مختلف سطحوں پر پیدا ہونے والے کوڑے کے خطرات سے بچانا تھا تاکہ ہسپتالوں میں محفوظ، صحت مند اور بہتر کام کے ماحول کو برقرار رکھا جاسکے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

لیبارٹریز، ہسپتالوں اور کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے قرنطینہ مراکز آئی سولیشن کی سہولیات سے پیدا ہونے والے تمام کچرے کو ’متعدی فضلہ‘ سمجھا جانا چاہیے اور لینڈ فلز میں اس کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ان میں کسی بھی دوسری چیز سے وائرس کے پھیلاؤ کا 95 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: آئی ایم ایف کی حکومتوں کو مارکیٹ میں استحکام کیلئے مداخلت کی تجویز

مریض کو دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کو ڈیوٹی کے مقام کو چھوڑنے سے قبل تمام سازوسامان، سپلائی اور لینن کو اتارنا چاہیے اور انہیں ایک بند ڈبے میں رکھنا چاہیے تاکہ انہیں جلانے کے مقام تک منتقل کیا جاسکے، تمام فضلہ، بشمول پی پی ایز، ڈریپس اور وائپس کو متعدی مادہ سمجھا جانا چاہیے اور اسے ضائع کرنے کے لیے مناسب طریقے سے پیک کیا جانا چاہیے۔

ایس او پیز میں کہا گیا تھا کہ ’دستانے اور حفاظتی لباس پہنیں، بشمول جوتوں کو بھی کوور کریں، چہرے اور آنکھوں کی حفاظت کے لیے بھی آلات کا استعمال کریں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو کورونا وائرس کے فضلہ اور پی پی ایز سے متعلق گائیڈ لائنز موصول ہوئی تھیں تاہم ان کو نظرانداز کردیا گیا۔

کورونا مہلک وبا سوائن فلو سے 10 گنا زیادہ خطرناک ہے، عالمی ادارہ صحت

خیبرپختونخوا میں قرنطینہ مراکز کے فضلے سے وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ

بلوچستان ہائی کورٹ: وزیراعلیٰ کے معاونین خصوصی کی تعیناتیاں غیرآئینی قرار