پاکستان

موٹروے ریپ کیس: ملزم شفقت 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

انسداد دہشت گردی عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزم کی شناخت پریڈ جلد از جلد کروا کر 29 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
|

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے کیس کی سماعت کی۔

سیشن کورٹ کے جج نے ملزم کو انسداد دہشتگری عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس پر گجر پورہ پولیس نے ملزم شفقت کو سخت سیکیورٹی میں چہرے پر کپڑا ڈال کر عدالت کے سامنے پیش کیا۔

خیال رہے کہ 9 ستمبر کی رات ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ گاڑی کا فیول ختم ہونے پر موٹروے پر مدد کی منتظر تھیں کہ 2 مسلح افراد وہاں آئے اور مبینہ طور پر خاتون اور ان کے بچوں پر تشدد کیا اور قریبی کھیتوں میں لے جا کر خاتون کا ریپ کردیا۔

مزکورہ واقعے پر ملک بھر میں شدید غم و غصے کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور حکام بالا نے واقعے کا سختی سے نوٹس لے کر کارروائی کی ہدایت کی۔

جس کے بعد واقعے کے ایک ملزم وقار الحسن نے خود پولیس کو اپنی گرفتاری پیش کی جبکہ دوسرے ملزم شفقت علی کو 14 ستمبر کو پولیس نے گرفتار کیا جس کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے تصدیق کی کہ ملزم کا ڈی این اے جائے وقوع سے اکٹھے کیے گئے نمونوں سے میچ کرگیا ہے۔

آج ملزم شفقت کو عدالت میں پیش کرنے کے بعد انسپکٹر ذوالفقار نے ملزم کا ریکارڈ پیش کیا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس کا ایک ملزم گرفتار، اعتراف جرم کرلیا، وزیراعلیٰ پنجاب

سماعت میں پروسیکیوشن نے استدعا کی کہ ملزم کی شناخت پریڈ کروانی ہے، 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔

تفتیشی افسر نے عدالت میں کہا کہ شفقت علی عرف بگا کی شناخت پریڈ کروانی ہے، ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے چنانچہ عدالت نے پروسکیوشن کی ملزم کی شناخت پریڈ کی استدعا منظور کر لی۔

ساتھ ہی عدالت نے ہدایت کی کہ ملزم کی شناخت پریڈ کے لیے خصوصی انتظامات کریں، ملزم دوسرے ملزموں کے ساتھ شامل نہ ہو سکے۔

عدالت نے تفتیشی افسر کو ملزم کی شناخت پریڈ جلد از جلد کروانے اور ملزم کو 29 ستمبر کو دوبارہ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: 'سی سی پی او کا بیان مناسب نہیں، انتظامی معاملات میں الجھے تو ہدف حاصل نہیں کرسکتے'

بعدازاں فاضل جج نے ملزم سے استفسار کیا کہ تم نے کچھ کہنا ہے تو بتاؤ جس پر ملزم نے کہا کہ بس جی مہربانی کر دیں، فاضل جج نے دریافت کیا کہ کیا مہربانی کریں جس پر ملزم نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیں۔

جج ارشد حسین بھٹہ نے ملزم سے کہا کہ تمہارا ڈی این اے میچ کر گیا ہے، تم نے کچھ نہیں کیا ہو گا تو چھوٹ جاؤ گے۔

دوسری جانب موٹروے ریپ واقعے کے مقدمے میں دہشت گردی کی خصوصی دفعات شامل کر دی گئیں۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔