پاکستان

جلد انصاف کی فراہمی میں وکلا کا کردار بہت اہم ہے، چیف جسٹس

ماتحت عدالتیں معاملات کو اس طرح جامع انداز میں نمٹائیں کہ یہ اعلیٰ عدالتوں کے پاس جائزہ لینے کے لیے نہ آئیں، تقریب سے خطاب

کوئٹہ: چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ماتحت عدالتیں معاملات کو اس طرح جامع انداز میں نمٹائیں کہ یہ اعلیٰ عدالتوں کے پاس جائزہ لینے کے لیے نہ آئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز یہاں نوجوان وکلا میں کتب کی تقسیم اور ضلعی عدالتوں کی عمارت کی تزئین و آرائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ جلد انصاف کی فراہمی میں وکلا کا کردار بہت اہم ہے اور وکلا کو مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں پر کمیٹی تشکیل دے دی

تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس کامران خان ملاخیل، جسٹس عبدالحمید بلوچ، جسٹس روزی خان بریچ، جسٹس نذیر احمد لانگو، جسٹس ظہیرالدین کاکڑ، بلوچستان ہائی کورٹ کے رجسٹرار راشد محمود، ایڈووکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی، بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین منیر احمد کاکڑ اور سینئر وکلا نے شرکت کی۔

چیف جسٹس احمد نے نوجوان وکلا کو مشورہ دیا کہ وہ قانون کے ساتھ ساتھ تاریخ اور فلسفے کا بھی مطالعہ کریں جس سے انہیں قانونی امور کو سمجھنے اور علم میں اضافے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مقدمات ماتحت عدالتوں میں موکلوں کے اطمینان کے ساتھ نمٹائے جاتے ہیں اور اعلی عدالتوں تک نہیں پہنچ پاتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالتوں کو زیادہ سے زیادہ مقدمات کی وجہ سے بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان کے فیصلوں میں غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تاکہ مؤکلوں کو انصاف مل سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی مقصد عدالتی نظام میں عوام اور شکایت دہندگان کا اعتماد بحال کرنا ہے اور خالصتا میرٹ پر انصاف کی فراہمی سے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ججز کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاکہ مقدمات کی سماعت تیزی سے ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت ناقابل قبول ہے، شیریں مزاری

انہوں نے زور دے کر کہا کہ کامیاب عدالتی نظام صرف عدالتی افسران کی پوری لگن سے ہی ممکن تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی برادری نے قانون اور انصاف کی بالادستی یقینی بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور جمہوریت اور آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ معیشت اور معاشرتی انصاف کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے اور وکلا کو چاہیے کہ وہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیادہ مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کریں اور ہڑتالوں کی ثقافت کی حوصلہ شکنی کریں اور عدالتی طریقہ کار کو آسانی سے انجام دینے کے لیے ان کی مدد کریں جس کی بدولت شکایت کرنے والوں کو بغیر کسی تاخیر انصاف مل سکے گا۔

چیف جسٹس نے بلوچستان کے نوجوان وکلا کی تربیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں جاری رہے گا اور اس سلسلے میں وہ متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کریں گے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں پرائمری اسکولز کھولنے کا فیصلہ 15 روز کیلئے مؤخر

انہوں نے ضلعی عدالتوں کی عمارت کی تزئین و آرائش کے کام کی تعریف کی۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے کتب کی تقسیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی عدالتوں کی تزئین و آرائش کے ساتھ ہی اس عمارت کو تاریخی شکل ملی، انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول اور سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے جو انہوں نے ضلعی عدالتوں میں بحیثیت وکیل محسوس کیا تھا، انہوں نے تقریب میں شرکت کرنے پر چیف جسٹس احمد کا شکریہ ادا کیا۔


یہ خبر یکم اکتوبر 2020 بروز جمعرات کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔