پاکستان

اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے پی ٹی آئی میں کسی قسم کی مشاورت نہ ہونے کا انکشاف

تحریک انصاف میں اندرون خانہ مشاورت نہیں ہوئی، وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی براہ راست معاملہ نمٹا رہے ہیں،رپورٹ

اسلام آباد: حزب اختلاف کے حکومت مخالف مظاہروں سے نمٹنے کے معاملے پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کبھی بھی اندرون خانہ مشاورت نہیں کی اور جمعہ کے روز کابینہ کے اراکین سمیت پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں کے بیک گراؤنڈ انٹرویوز سے انکشاف ہوا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے کچھ قریبی ساتھی براہ راست اس معاملے کو نمٹا رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ وزرا کے مطابق 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں 11 جماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے عوامی جلسے کے ساتھ حکومت مخالف مہم کے باقاعدہ آغاز کے بعد سے اب تک یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کے دوران کبھی بھی مناسب بحث میں نہیں آیا، اگرچہ اس کا ایک دو ملاقاتوں میں کبھی کبھار ذکر ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں، شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے میڈیا منیجرز کی کچھ میٹنگوں میں یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے لیکن بات چیت میڈیا کے ذریعے حزب اختلاف کے الزامات اور ردعمل کا جواب دینے کی حکمت عملی تک ہی محدود رہی۔

اور اب پی ٹی آئی میں اپوزیشن کو سیاسی طور پر شامل کرنے کے حق میں بولنے والے لوگوں میں ایک عام احساس پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت موقع کھو چکی ہے اور اب انہیں دیر ہوچکی ہے کہ وہ اپوزیشن کو ایسی پیش کش کرے۔

ایک سینئر وفاقی وزیر کو جب اس حقیقت کی یاد دہانی کرائی گئی کہ 20 ستمبر کو اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی کثیر الجہتی کانفرنس کے بعد سے پارٹی کے فیصلہ سازی فورموں کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہاں تم صحیح ہو، اس معاملے پر پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی یا پارٹی کی کور کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا، پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں تین مرحلوں میں حکومت مخالف تحریک چلانے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا جس میں عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے شروع ہونے والے 'ایکشن پلان' کے تحت جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف 'فیصلہ کن لانگ مارچ' کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ منتخب وزیر اعظم کے استعفے اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے کے لیے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد سمیت تمام سیاسی اور جمہوری آپشنز کا استعمال کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا معاونین خصوصی کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف آپشنز پر غور

پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ 13 دسمبر کو لاہور میں جلسہ عام کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور اتحاد کی قیادت پہلے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے قانون سازوں کو 31 دسمبر تک اپنے استعفے آئین ساز پارٹیوں کے متعلقہ سربراہوں کے حوالے کرنے کی ہدایت کر چکی ہے جو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کرنے کے وقت پیش کیے جاسکتے ہیں۔

اس وقت حکومت کو اپنے الجھن سے بھرپور فیصلوں کی وجہ عوام اور میڈیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں ایک طرف حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو لاہور میں جلسہ عامہ کے انعقاد کی اجازت نہیں دیں گے اور دوسری جانب اعلان کیا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو ایسا کرنے سے روکیں گے بھی نہیں اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات بھی درج کررہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ فیصلہ کس فورم پر کیا گیا ہے تو وزیر نے سیدھا جواب دیا شاید پنجاب حکومت ہی فیصلے کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ چونکہ امن و امان ایک صوبائی موضوع ہے لہٰذا پی ڈی ایم جلسوں اور پروگراموں کو سنبھالنے کا معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے اعتراف کیا کہ پارٹی کے اندر ایک "مضبوط گروپ" موجود ہے جو یہ چاہتا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے مذاکرات کرے کیونکہ ملک میں انتشار کی کوئی بھی صورت صرف حکومت کے لیے نقصان دہ ہوگی اور اپوزیشن کو اس کا نقصان نہیں ہو گا کیونکہ ان کا کچھ بھی داؤ پر نہیں لگا ہوا۔

مزید پڑھیں: 31 دسمبر سے پہلے سارے استعفے میری جیب میں ہوں گے، بلاول بھٹو

ایک مایوس وزیر نے جب یہ پوچھا گیا کہ پارٹی میں پی ڈی ایم کے احتجاج سے نمٹنے پر کیا سوچ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پارٹی میں کوئی سوچ نہیں ہے۔

وزیر جو وقت میں حزب اختلاف پر تنقید اور حکومت کے ہر اقدام کا انتہائی معنی خیز انداز میں دفاع کرنے میں بہت سرگرم تھے، نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ ہم نے معاملہ ان لوگوں کے ذریعہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے، جنہیں اپوزیشن جماعتیں اپنے جلسوں میں براہ راست نشانہ بنارہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تحریک انصاف کے اندر ایک گروپ موجود ہے جس کا خیال ہے کہ پارٹی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرے اور اپوزیشن سے سایسی طور پر بات چیت کرے، ، جب ان سے حکومت سے سیاسی مذاکرات کے حامی افراد کی شناخت کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے وزیر دفاع پرویز خٹک اور خود سمیت پارٹی کے متعدد سینئر رہنماؤں کا نام لیا۔

پی ٹی آئی کے ایک اور سینئر رکن کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے حق میں تھے لیکن اب انہیں یقین ہے کہ بہت دیر ہوچکی ہے، انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر حزب اختلاف کو مذاکرات کے لیے براہ راست پیش کش کو حکومت کی جانب سے پسپائی اور اپوزیشن جماعتوں کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا۔

’وبا نے ایک بار پھر احساس دلادیا کہ تعلیمی اداروں میں بہتری کی اشد ضرورت ہے‘

'ارطغرل' کا بادشاہی مسجد کا دورہ

کورونا ویکسین پاکستان کب تک پہنچے گی، اس کی قیمت کیا ہوگی؟