پاکستان

مارچ میں ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں 65 فیصد اپوزیشن اراکین شامل

اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق، وزیر اطلاعات شبلی فراز،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا بھی ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں شامل ہیں۔

اسلام آباد: 11 مارچ 2021 کو اپنی 6 سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہونے والے 65 فیصد سے زائد سینیٹرز کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹیوں کی پوزیشن سینیٹ میں الیکٹورل کالج تشکیل دیتی ہیں تاہم اپوزیشن جماعتیں جو حکومت مخالف مہم کے سلسلے اسمبلیوں سے بڑی تعداد میں استعفے دینے کی دھمکی دے رہی ہیں وہ اگر اسمبلیوں سے استعفے نہیں بھی دیتی تب بھی وہ ایوان بالا میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔

اگر اعداد و شمار کو دیکھیں آئندہ سال مارچ میں موجودہ 103 اراکین سینٹ میں سے 52 اراکین ریٹائر ہورہے ہیں، جس میں 34 کا تعلق اپوزیشن جماعتوں جبکہ 18 حکومتی بینچوں سے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کیلئے اوپن بیلٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 104 ہے تاہم سابق وزیرخزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار نے سینیٹر کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھایا تھا کیونکہ وہ لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ خودساختہ جلاوطنی میں رہ رہے ہیں۔

نمائندگی کے حساب سے دیکھیں تو ایوان بالا میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نقصان سب سے زیادہ ہوگا کیونکہ اس کے 57 فیصد اراکین 6 سالہ مدت پوری کرکے آئندہ برس مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سینیٹ میں اراکین کے حساب سے سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے موجودہ 30 سینیٹرز میں سے مارچ 2021 میں 17 ریٹائر ہورہے ہیں۔

اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق، پارٹی کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید مسلم لیگ (ن) کے وہ مشہور سینیٹرز ہیں جو ریٹائر ہورہے ہیں۔

ادھر اعداد و شمار کو دیکھیں تو ان 52 سینیٹرز میں سے 8 اراکین پیپلزپارٹی کے بھی ہیں جو اپنی 6 سالہ مدت پوری کریں گے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا، پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن، سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور سابق وزیر قانون فاروق نائیک ان 8 اراکین میں شامل ہیں جو پیپلزپارٹی کے موجودہ 21 سینیٹرز میں سے ریٹائر ہوں گے۔

تاہم سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اکثریت کے باعث سلیم مانڈوی والا، رحمٰن ملک اور فاروق نائیک کے دوبارہ سینیٹ میں آنے کے امکانات روشن ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی (این پی) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، 2 اراکین اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم)، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ایک، ایک سینیٹر آئندہ سال مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق بھی ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں شامل ہیں۔

وہی اگر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بات کریں تو اس کے موجودہ 14 سینیٹرز میں سے 7 ریٹائر ہورہے ہیں جس میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا سے ہیں۔

پی ٹی آئی کے ریٹائر ہونے والے ان اراکین میں سے سب سے زیادہ مشہور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز، محسن عزیز اور نعمان وزیر ہیں۔

پی ٹی آئی جسے پہلی مرتبہ 2015 میں سینیٹ میں نمائندگی حاصل ہوئی تھی اس کے پاس نہ صرف اب اپنی نمائندگی بہتر کرنے کا موقع ہے بلکہ وہ ایوان کی سب سے بڑی جماعت بھی بن سکتی ہے کیونکہ اس کے پاس پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیز میں بڑی تعداد ہے۔

علاوہ ازیں دیگر 18 حکومتی سینیٹرز جو ریٹائر ہونے جارہے ہیں ان میں 4 کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور 3 کا بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے جبکہ 4 آزاد اُمیدوار سابق وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ہے۔

ایم کیو ایم کے جو اراکین سینیٹ اپنی مدت پوری کر رہے ہیں ان میں خوشبخت شجاعت، میاں عتیق شیخ، بیرسٹر محمد علی سیف اور نگہت مرزا شامل ہیں۔

اسی طرح شعلہ بیان پی کے میپ کے سینیٹر عثمان کاکڑ بھی ریٹائر ہورہے ہیں جبکہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی مولانا عطا الرحمٰن، پارٹی کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری بھی وہ سینیٹرز ہیں جو ریٹائر ہورہے ہیں۔

اے این پی وہ واحد جماعت ہے جو سینیٹ سے اپنی نمائندگی کے خاتمے کے دہانے پر ہے کیونکہ اس کی واحد رکن ستارہ ایاز بھی ریٹائر ہونے والی ہیں، جس کے بعد اسمبلیوں میں موجودہ پارٹی پوزیشن پر ایوان بالا کے لیے کسی رکن کے منتخب ہونے کا امکان تقریباً نہیں ہے۔

تاہم ستارہ ایاز اے این پی سے اختلاف کرتی ہیں اور وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف ناکام تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت مبینہ طور پر دھوکا دینے پر نکالے جانے کے بعد سے اپوزیشن کا باقاعدہ حصہ بھی نہیں بن رہیں۔

واضح رہے کہ سینیٹ 104 اراکین پر مشتمل ہے جس میں سے 4 فیڈریٹنگ یونٹس (صوبوں) میں سے ہر ایک سے 23، فاٹا سے 8 اور اسلام آباد سے اراکین شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں کب، کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ مکمل طریقہ

صوبے کے لیے مختص 23 نشستوں میں سے 14 جنرل نشستیں، 4 خواتین کے لیے، 4 ٹیکنوکریٹس کے لیے اور ایک اقلیتی رکن کے لیے ہے۔

ایک سینیٹر کی مدت 6 سال ہے تاہم مجموعی تعداد میں سے 50 فیصد ہر 3 سال بعد ریٹائر ہوجاتے ہیں اور نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں، ہر صوبے کے مختلف نشتوں کو پورا کرنے کے لیے ’ایک ہی منتقل شدہ حق رائے کے ذریعے متناسب نمائندگی کے نظام‘ کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں۔

تاہم آنے والا سینیٹ 98 اراکین پر مشتمل ہوگا کیونکہ ملک کے قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے بعد 4 خالی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے، لہٰذا سینیٹ کے انتخابات ہمیشہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن پر انحصار کرتے ہیں۔

11 مارچ 2021 کو ریٹائر ہونے والے دیگر سینیٹرز کے نام یہ ہیں: مسلم لیگ (ن) کے آغاز شہباز درانی، عائشہ رضا فاروق، چوہدری تنویر خان، اسد اشرف، غوث محمد نیازی، کلثوم پروین، لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمیذی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، جاوید عباسی، نجما حمید، پروفیسر ساجد میر، راحیلہ مگسی، سلیم ضیا، سردار یعقوب نثر، پاکستان پیپلزپارٹی کے اسلام الدین شیخ، سسی پلیجو، گیان چند اور میر یوسف بادینی، پی ٹی آئی کے بریگیڈیئر (ر) جوہن کیتھ ویلیمز، لیاقت ترکئی، سمینا سعید اور ذیشان خانزادہ، ایم کیو ایم کی نگہت مرزا، بی اے پی کے سرفراز بگٹی، منظور احمد اور خالد بزنجو، پی کے میپ کی گل بشرا، نیشنل پارٹی کے اشوک کمار اور میر کبیر شاہی، بی ایم پی مینگل کے ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی شامل ہیں۔

مزید یہ کہ آزاد اُمیدواروں میں اورنگزیب خان، مومن خان آفریدی، سجاد حسین توری اور تاج محمد آفریدی شامل ہیں۔


یہ خبر 14 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

پی ڈی ایم نےعوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال کرسنگدلی کا مظاہرہ کیا، وزیراعظم

والد کے ساتھ معیاری وقت بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے کیلئے مددگار

دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر کے دہشت گردی سے متعلق الزامات مسترد کردیے