پاکستان

پی آئی اے ملازمین کی اکثریت کو ایئرلائن سے نکالنے کا ہدف

29 طیاروں کے لیے ملازمین کی نصف سے زائد تعداد کو کم کر کے ساڑھے 7 سے 8 ہزار تک کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے، پی آئی اے انتظامیہ

راولپنڈی: پاکستان انٹرنیشل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کے تحت اپنے 29 طیاروں کے لیے ملازمین کی نصف سے زائد تعداد کو کم کر کے ساڑھے 7 سے 8 ہزار تک کرنے اور بنیادی افعال اور غیر بنیادی افعال کو الگ کرنے کا ہدف مقرر کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات پی آئی اے انتظامیہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہی گئی۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت پی آئی اے کے 29 طیاروں کے لیے 14 ہزار 500 ملازمین ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ترکش ایئرلائنز میں 329 طیاروں کے بیڑے کے لیے 31 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کیلئے ملازمت سے رضاکارانہ علیحدگی کی اسکیم

رپورٹ کے مطابق زائد افرادی قوت پی آئی اے انتظامیہ کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے، کم کام ہونے کے سبب اضافی ملازمین اپنے آپ کو ایسی رکاوٹ ڈالنے والی سرگرمیوں سے منسلک رکھتے ہیں جو دیگر ملازمین کی پیداواری صلاحتیوں پر منفی اثر مرتب کرتی ہے۔

انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ بہت سے ملازمین بہت معمولی یا کوئی کام نہیں کرتے جس سے محنت کرنے والوں کا بھی حوصلہ ٹوٹتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ بات مدِ نظر رکھتے ہوئے افرادی قوت کا صحیح حجم بہت ضروری ہے اور وفاقی حکومت کی منظوری سے پی آئی اے انتظامیہ نے 7 دسمبر کو ملازمین کو ایک دفعہ کی ادائیگی کے ساتھ رضاکارانہ علیحدگی اسکیم کی پیشکش کی۔

سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ پی آئی انتظامیہ نے ملازمین کو بنیادی اور غیر بنیادی کاروبار کی 2 کیٹیگریز میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، چونکہ پی آئی اے بنیادی کاروبار میں بہتر کارکردگی نہیں دکھا پا رہی اس لیے غیر بنیادی کاروبار بھی متاثر ہورہے ہیں۔

چنانچہ چھوٹے اور منافع بخش یونٹ چلانے کے بجائے وہ بھاری لاگت اور نقصانات اٹھا رہے ہیں جو کمپنی کے لیے مزید بڑا بوجھ بن رہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پی آئی اے نے وسیع غیر بنیادی کاروباری افعال کا ذمہ اٹھا رکھا تھا جس میں کھانے کی سروسز، تکنیکی گراؤنڈ سروسز، بڑی انجینیئرنگ سہولت پریسیشن انجینئرنگ کمپلیکس (پی ای سی) کے ذریعے طیاروں کے بیڑے کی مرمت اور دیکھ بھال اور اسپیڈایکس کوریئر سروس شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے پائلٹس کے 141 معطل کردہ لائسنسز میں سے 110 کلیئر

رپورٹ کے مطابق بنیادی افعال کیکیٹیگری میں مارکنگ، افرادی قوت، ،مالیات، پروازوں کی سروسز، خریداری کا شعبہ شامل ہے اور غیر بنیادی کیٹیگری سے 3 ہزار 977 ورکرز کی کمی کے بعد پی آئی اے کو ایک سال میں 61 ارب روپے کی بچت ہوگی۔

اس کے علاوہ انجینیئرنگ سروسز کو ایک بڑی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر میں داخل ہو کر ایک علیحدہ کاروباری یونٹ میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے جس کے بعد پی آئی اے اپنی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ افریقہ اور ایشیا جیسے خطوں میں بھی فراہم کرے گی جہاں اس قسم کی سروسز کی طلب بہت زیادہ ہے۔

انفرا اسٹرکچر کی قیمت طے کرنے کا عمل

انتظامیہ کے مطابق متعدد وجوہات کی بنا پر پی آئی اے کے پاس کھانے پینے کے افعال مؤثر طریقے سے انجام دینے کی اہلیت نہیں، نا اہل افرادی قوت ہونے کی وجہ سے فلائٹ کچن میں بنیادی قابلیت کی بڑی خامیاں موجود ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان سہولیات اور کیٹرنگ کے آلات پرانے ہیں جس کے لیے اہم مالی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ان مسائل کے سبب پی آئی اے کی غذائی پیداوار کا معیار ایک سطح سے زیادہ بہتر نہیں ہوسکتا کیوں کہ اس کے لتے بنیادی قابلیت کی بہتری اور غذائی افعال کی یکسر تبدیلی درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے ملازمین کو نوکری سے رضاکارانہ بنیادوں پر علیحدگی کی پیشکش کا منصوبہ

چنانچہ منصوبے کے تحت پی آئی اے کا غذائی آپریشن جوائنٹ وینچر بنانے کے لیے 2021 کی دوسری سہ ماہی میں ٹینڈر کیا جائے گا جبکہ ساز و سامان اور انفرا اسٹرکچر کی قیمت طے کرنے کا عمل کرنے کے لیے ٹینڈر پر کام جاری ہے۔

پی ای سی پاک فضائیہ کو منتقل

رپورٹ میں کہا گیا کہ پریسیشن انجینئرنگ کمپلیکس (پی ای سی)کی ایک اسٹریٹجک یونٹ ہونے کی وجہ سے پی آئی اے کے لیے بہت معمولی خدمات تھیں چنانچہ وزیراعظم پہلے ہی پی ای سی کو پاک فضائیہ منتقل کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر دے چکے ہیں۔

انتظامیہ کے مطابق ایئرلائن ٹیکنیکل گراؤنڈ سروسز بھی ٹھیکے پر دے رہی ہے اور خصوصی خدمات فراہم کرنے والی متعدد کمپنیاں مارکیٹ میں سامنے آئی ہیں۔

رپورٹ میں بھی بتایا گیا کہ پی آئی اے کی کوریئر سروس اسپیڈ ایکس جس کا انفرا اسٹرکچر 74 ملکی منزلوں تک پھیلا ہوا تھا اور 320 ملازمین کام کرتے تھے اسے نومبر 2020 میں بند کیا جاچکا ہے۔

پاکستان نے سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر قرض واپس کردیا

فرانس: چارلی ہیبڈو حملہ آوروں کے سہولت کاروں کو بھی سزائیں

دنیا کی ایک چوتھائی آبادی 2022 تک کووڈ ویکسینز حاصل نہیں کرسکے گی، تحقیق