پاکستان

سال 2020: غیر واضح پالیسز کے باعث ملک میں انٹرنیٹ کی آزادی متاثر ہوئی

پاکستان میں پہلے سے موجود غیردوستانہ ماحول، معلومات تک رسائی کی آزادی اور ڈیجیٹل رائٹس کی صورت حال مزید ابتر ہوئی ہے، رپورٹ

اسلام آباد: پاکستان میں 2020 کے دوران انٹرنیٹ کی آزادی متاثر ہوئی ہے، جس کی وجہ حکومت کی جانب سے سیاسی، سماجی اور کلچرل ویب سائٹس کو بلاک کرنے میں اضافے کا رجحان اور رابطے کی پابندی اور غلط معلومات کے حوالے سے سائبر کرام قانون کے غلط استعمال سے متعلق غیر واضح پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ معلومات انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈوکیسی اینڈ ڈپارٹمنٹ (آئی آر اے ڈے اے) کی جانب سے جاری کی گئی ‘اینول پاکستان میڈیا لیگل ریویو 2020’ نامی رپورٹ میں فراہم کی گئی ہیں، جو 3 مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع کی مناسبت سے جاری کی گئی۔

مزید پڑھیں: پاکستان انٹرنیٹ آزادی نہ رکھنے والے بدترین ممالک میں شامل، رپورٹ

رپورٹ کا عنوان ‘پاکستان کے آن لائن عوامی مقام میں بڑھتا ہوا خوف اور نفرت’ رکھا گیا ہے جس میں بتایا گیا کہ ‘2020 میں مذکورہ تمام وجوہات کی وجہ سے آزادی اظہار رائے کے حوالے سے پاکستان میں پہلے سے موجود غیر دوستانہ ماحول، معلومات تک رسائی کی آزادی اور ڈیجیٹل رائٹس کی صورت حال ابتر ہوئی ہے’۔

آئی آر اے ڈی اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد آفتاب عالم کا کہنا تھا کہ میڈیا لیگل ریویو 2020 اس مرتبہ مرحوم آئی اے رحمٰن کو منسوب کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو انٹرنیٹ پالیسیز اور قوانین میں رجعت کے باعث، خاص طور پر آن لائن مواد کے حوالے سے، ڈیجیٹل رائٹس، آزادیِ اظہار رائے اور معلومات تک رسائی پر عمل درآمد کے حوالے سے ناکامیوں کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ‘اس کے نتیجے میں سینسر شپ، نفرت انگیز تقاریر، ڈیجیٹل نگرانی اور رازداری کی خلاف ورزی اور آن لائن غلط معلومات اور غلط اطلاعات میں اضافہ ہوا’۔

2020 میں ملک میں میڈیا سے متعلق متعارف کروائے گئے قوانین حکومت کے جارحانہ اقدامات کا مظہر ہیں جس میں حکومت، میڈیا کے شعبے کو قانون کے دائرے میں لانے اور آزادی اظہار رائے کی حد بندی کے لیے حکام کے دائر اختیار کو وسیع کرنا چاہتی تھی۔

یہ اقدامات نہ صرف میڈیا اور معلومات فراہم کرنے والوں، جن میں صحافی اور آن لائن شہری بھی شامل ہیں، کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں، سول سوسائٹی کی مہمات اور دیگر رہنماؤں پر بھی اثر انداز ہونے کے لیے تھے۔

بہر حال رپورٹ میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے برداشت کو کم کرتے ہوئے قانونی طریقہ کار اختیار کیے گئے جس کے لیے انٹر نیٹ کو کنٹرول کرنے کے اقدامات اٹھائے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ سے متعلق عالمی درجہ بندی میں پاکستان تنزلی کا شکار

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سائبر کرائم قانون کو مبینہ طور پر صحافیوں، رائے قائم کرنے والوں اور سوشل میڈیا ایکٹوزم کی آزادی اظہار رائے کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا، پریوینٹیشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کے تحت صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی ایک بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیا، متعدد صحافیوں کو آن لائن/سوشل میڈیا سرگرمیوں اور پوسٹس پر تحقیقات، گرفتایاریوں اور اغوا کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ کے مطابق ‘2020 کے دوران پیکا کے تحت صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کے خلاف کارروائی کے 13 واقعات رپورٹ ہوئے’۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے یا تو صحافیوں اور آن لائن معلومات دینے والوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور یا سائبر کرائم قانون کے تحت ان کے خلاف مقدامات قائم کیے گئے، جن میں سے کم سے کم 2 کو ان کی آن لائن مبینہ طور پر غیر قانونی سرگرمیوں پر گرفتار کیا گیا۔

وزیر اعظم ہاؤس کو استعمال کرکے گھناؤنی سازشیں ہورہی ہیں، مریم نواز

پاکستان میں پہلی مرتبہ کورونا سے 200 سے زائد اموات ریکارڈ

22 اعلیٰ افسران پر 'جبری ریٹائرمنٹ' کی تلوار لٹکنے لگی