دنیا

مسئلہ فلسطین: مصر، اسرائیل کا 'مستقل جنگ بندی' کیلئے تبادلہ خیال

اسرائیلی وزیر اعظم نے مقبوضہ بیت المقدس میں مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل سے ملاقات کی۔

قائرہ: اسرائیلی اور مصری عہدیداروں نے حال ہی میں بات چیت کی ہے، جس کا مقصد اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کو مستقبل بنیادوں پر برقرار رکھنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل سے ملاقات کی اور 'تعاون کو مضبوط بنانے' پر تبادلہ خیال کیا۔

مزیدپڑھیں: غزہ پر اسرائیلی مظالم رکوانے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، وزیر خارجہ

مصر کے سینئر سیکیورٹی عہدیداروں نے بتایا کہ مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل اور اس کے وفد کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا بھی دورہ کریں اور مستقل طور پر جنگ بندی کے معاہدے کو قابل عمل بنائیں۔

اسی دن اسرائیل کے وزیر خارجہ گابی اشکینازی نے مصر میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کی۔

واضح رہے کہ یہ اسرائیلی وزیر خارجہ کا 13 برس میں مصر کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ وہ 'حماس کے ساتھ مستقل فائر بندی، انسانی امداد کی فراہمی کے طریقہ کار اور عالمی برادری کے تعاون کے ساتھ غزہ کی تعمیر نو جیسے امور پر تبادلہ خیال کریں گے'۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کے بعد فلسطین میں عالمی امداد پہنچنے کا سلسلہ شروع

بعد ازاں انہوں نے 'علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والے انتہا پسند عناصر کو روکنے اور حماس کے ہاتھوں لاپتا افراد اور قیدیوں کی اسرائیلی واپسی کو یقینی بنانے کی کوششوں کا مطالبہ کیا'۔

مصری وزارت خارجہ نے ٹوئٹ میں کہا کہ وزرا کی بات چیت 'امن کی بحالی اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے مصر کی انتھک اور مسلسل رکھنے والی کوششوں کا حصہ ہے'۔

مصر کے سینئر سیکیورٹی عہدیداروں نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر بتایا کہ قاہرہ میں منعقد بات چیت میں حماس کے رہنما اسمٰعیل کی شرکت بھی متوقع ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے تاہم اس 11 دن جاری رہنے والی جارحیت میں اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں 56 افراد سے زائد جاں بحق ہوگئے تھے اور ان میں 14 بچے بھی شامل تھے۔

ان 11 دنوں میں اسرائیل کی جانب سے پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بمباری کی گئی، میزائیل حملوں میں بچے جاں بحق ہوئے، عمارتوں پر حملہ کرکے انہیں منہدم کیا گیا اور لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے بے بسی میں اپنے پیاروں کی لاشیں نکلتے ہوئے دیکھتے رہے۔

اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں جو انسانی بحران پیدا ہوا اس سے ہر فلسطینی متاثر ہوا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا تھا کہ صرف 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز ایک ہزار فلسطینیوں کو زخمی کرچکی ہے۔

اس تشدد کا آغاز مقبوضہ بیت المقدس سے ہوا جو یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں مقدس مقام ہے۔

10 مئی کو مسجد اقصیٰ میں فلسطینی نمازیوں پر اسرائیلی پولیس کے حملے نے حماس کو جوبای کارروائی کے طور پر یہودی ریاست پر راکٹ حملے کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

اسرائیل کی فوج نے ان راکٹ حملوں کا فضائی بمباری سے جواب دیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا لیکن اگرچہ فلسطینی اور بین الاقوامی اداروں نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے گنجان آباد آبادی والی پٹی کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔

شہزاد اکبر پر الزام: نذیر چوہان کے خلاف مقدمے سے بات بگڑی ہے، جہانگیر ترین

کویت کا پاکستانیوں کے ویزوں پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ

حکومت، اپوزیشن نے ایک دوسرے کے اقتصادی اعداد و شمار کو چیلنج کردیا