دنیا

پنج شیر کے قریب 3 اضلاع پر طالبان مخالف فورسز کا قبضہ

صوبہ بغلان میں واقع ضلع بانو مقامی فورسز کے کنٹرول میں ہے جہاں بھاری جانی نقصان ہوا ہے، پولیس کمانڈر

افغانستان کے شمالی حصے میں طالبان کے خلاف لڑنے والی فورسز کا کہنا ہے کہ انہوں نے وادی پنج شیر، جہاں فورسز اور دیگر گروپس اکٹھا ہوئے تھے، اس کے قریب تین اضلاع پر قبضہ حاصل کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے وزیر دفاع جنرل بسمہ اللہ محمدی نے ٹوئٹر پر کہا کہ پنج شیز کے شمال میں واقع صوبہ بغلان میں 3 اضلاع دیہہ صالح، بانو اور پل حصار پر قبضہ کرلیا ہے۔

فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ اس میں کون سی قوتیں ملوث تھی لیکن یہ واقعہ طالبان کی مخالفت کی جانب اشارہ کرتا ہے جنہوں نے برق رفتاری سے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے دوران انہوں نے ایک ہفتے میں افغانستان کے مرکزی شہروں کا کنٹرول بھی حاصل کیا تھا۔

مقامی ٹیلی ویژن اسٹیشن طلوع نیوز نے مقامی پولیس کمانڈر کا حوالہ دیا، جن کا کہنا تھا کہ بغلان میں واقع ضلع بانو مقامی فورسز کے کنٹرول میں ہے اور یہاں بھاری جانی نقصان ہوا ہے جبکہ اس پر طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کیلئے افغان فورسز کی طالبان سے لڑائی

سابق نائب صدر امر اللہ صالح اور احمد مسعود نے پنج شیر سے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا تھا جو 80 کی دہائی میں سابق سویت یونین اور 90 کی دہائی میں طالبان کو پسپا کرنے والے مجاہدین کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں۔

احمد مسعود کے رفقا کا کہنا تھا کہ فوج، خصوصی فورسز یونٹ کی باقیات اور مقامی ملیشیا گروپس پر مشتمل 6 ہزار جنگجو وادی میں جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کچھ ہیلی کاپٹرز اور فوجی گاڑیاں تھیں جبکہ انہوں نے سویت یونین کی چھوڑی گئی کچھ بکتر بند گاڑیوں کی مرمت بھی کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا چمن سے ملحقہ افغان سرحد پر قبضہ کرنے کا دعویٰ

پنج شیر میں موجود گروپوں اور کچھ مشرقی شہروں اور دارلحکومت کابل میں ہونے والے غیر منظم مظاہروں کے درمیان کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوا، جس میں سرخ، سبز اور سیاہ رنگوں کا افغان پرچم لہرایا گیا تھا۔

تاہم وہ ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جو تیزی سے حاصل کی گئی فتح کو مستحکم کرنے کے لیے طالبان کو درپیش ہوسکتے ہیں۔

طالبان نے اب تک پنج شیر میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی جہاں 30 سال سے زائد عرصہ قبل جنگ کے دوران تباہ ہونے والی سوویت کی بکتر بند گاڑیوں کا ملبہ آج بھی موجود ہے۔

تاہم مغربی سفارت کاروں اور دیگر نے بیرونی مدد کی کمی اور ہتھیاروں کی مرمت کے فقدان کے باعث وہاں جمع ہونے والے گروپوں کی جانب سے مؤثر مزاحمت کی صلاحیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

خیال رہے کہ سوویت یونین 1979 سے 1989 تک افغانستان پر قابض رہنے کے بعد وہاں سے چلا گیا تھا اس دوران اس کے 15ہزار فوجی ہلاک اور کئی ہزار زخمی ہوئے۔

دوسرا ٹیسٹ: پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان دوسرے دن کا کھیل بارش کی نذر

نادرا نے شناختی کارڈ کی تجدید کیلئے آن لائن نظام متعارف کروادیا

ازخود نوٹس کے معاملات پر غور کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل