دنیا

جوہری مسئلے پر جو بائیڈن نے محض ٹرمپ کا مطالبہ دہرایا ہے، ایران

امریکا کی خارجہ پالیسی کے پیچھے ایک شکاری بھیڑیا ہے جو کبھی چالاک لومڑی میں بدل جاتا ہے، سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ جوہری معاہدے کی بحالی کے بات چیت میں وہی مطالبات کر رہی ہے جو ان کے پیشرو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کرتے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی ٹیلی ویژن پر خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکا کی موجودہ انتظامیہ پچھلی انتظامیہ سے مختلف نہیں ہے کیونکہ وہ جوہری مسئلے پر ایران سے جو مطالبہ کرتی ہے وہ وہی چیز ہے جس کا ٹرمپ نے مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران کو جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کیلئے جلدی نہیں، خامنہ ای

آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ بھی ’آج وہی چیز چاہتی ہے جو ماضی کے مقابلے میں مختلف نہیں، ٹرمپ نے جو کچھ کہا وہ آج یہ دوسرے الفاظ میں کہہ رہے ہیں'۔

سرکاری ویب سائٹ کی جانب سے ان کا حوالہ دیا گیا کہ امریکیوں کو ایٹمی مسئلے پر واقعی کوئی شرم نہیں ہے، اگرچہ وہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوئے لیکن ایسے مطالبہ کرتے ہیں جیسے ایران مشترکہ جامع پلان آف ایکشن سے دستبردار ہوا ہو۔

ایران کے سپریم لیڈر نے مذکورہ خیالات کا اظہار نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی کی نئی تشکیل شدہ کابینہ کے ساتھ ایک اجلاس میں کیا، جس کے دوران انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت پر عوامی اعتماد کو ’نقصان‘ پہنچا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی مذاکرات کے 6 دور ہوچکے ہیں جس میں امریکا بالواسطہ طور پر حصہ لے رہا ہے۔

اپریل اور جون کے درمیان ویانا میں منعقد ہوئے آخری مذاکراتی دور 20 جون کو اختتام پذیر ہوا جس کے بعد کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کے پیچھے ایک شکاری بھیڑیا ہے جو کبھی چالاک لومڑی میں بدل جاتا ہے۔

ان کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب تہران میں ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ ایران، جو بائیڈن کی دھمکیوں کے بعد واشنگٹن کو ’جوابی ردعمل‘ دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ایران کے جوہری سائنسدانوں پر پابندی کا اعلان کردیا

جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیل کے وزیر اعظم سے ملاقات میں کہا تھا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ ’ایران کبھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم سفارت کاری کو اولین ترجیح دے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہمیں کہاں لے جاتا ہے لیکن اگر سفارت کاری ناکام ہو جاتی ہے تو ہم دوسرے آپشنز پر جانے کے لیے تیار ہیں۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران پر پابندی کے فیصلے کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان دہائیوں سے جاری کشیدگی میں شدت آگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹرز کا ٹرمپ سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ

امریکا میں 3 نومبر 2020 کو ہوئے صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے والے جو بائیڈن نے جوہری معاہدے میں واپسی کے اشارے دیے تھے، جنہوں نے 20 جنوری کو امریکا کے صدر کی حیثیت سے منصب سنبھالا تھا۔

جو بائیڈن نے عندیہ دیا تھا کہ وہ معاہدے میں واپسی کے بعد ایران کے ساتھ واضح انداز میں بات کرنا چاہتے ہیں جس میں خاص کر میزائل اور مشرق وسطیٰ سمیت خطے میں اثر و رسوخ شامل ہے۔

این سی او سی نے کورونا سے متعلق پابندیوں کا نفاذ 27 شہروں تک بڑھا دیا

وزارت خزانہ کا عالمی سطح پر اجناس کی قیمتیں بڑھنے پر اظہارِ تشویش

اسلام آباد انتظامیہ، پولیس افغانستان سے آنے والے مسافروں کے بارے میں ’لاعلم‘