پاکستان

افغان خواتین کے لیے مل کر آواز بلند کریں، ملالہ یوسزئی کی عالمی برادری سے اپیل

افغانستان میں حکمرانوں کی تبدیلی ملک کی خواتین اور لڑکیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے، ملالہ یوسفزئی

اقوام متحدہ: پاکستان کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ افغان لڑکیوں کو اسکول جانے اور ان کے اساتذہ کو کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے مل کر آواز بلند کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملالہ یوسفزئی جو اب تک کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ہیں، نے جمعرات کی سہ پہر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان میں حکمرانوں کی تبدیلی ملک کی خواتین اور لڑکیوں پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔

سوات کی ایک سڑک پر گولی لگنے کے بعد زندہ بچ جانے کے بارے میں اپنے تجربے کا بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 15 سال قبل ان کے بچپن میں عوام کو کوڑے مارنے، اسکولوں کی جانب سے لڑکیوں کے لیے دروازے بند کرنے اور شاپنگ مالز میں بینرز لگا کر خواتین کو دور رکھنے کے لیے کہا جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے اگر ہم ابھی عمل نہیں کریں گے تو بہت سی افغان لڑکیاں بھی سناتی دکھائی دیں گی'۔

انہوں نے کونسل سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان کو واضح پیغام دیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو برقرار رکھنا کسی بھی قسم کے ورکنگ ریلیشن شپ کی شرط ہے۔

ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب حالیہ دنوں میں میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ طالبان جو گزشتہ ماہ 20 سال بعد کابل میں واپس اقتدار میں آئے تھے، ایک بار پھر لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو محدود کر رہے ہیں اور انہیں گھروں میں رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ 'میں نے ہر لڑکی کے اسکول جانے کے حق کے لیے آواز اٹھائی، میں نے دیکھا کہ ایک بندوق بردار نے میری اسکول بس کو روکا، میرا نام لیا اور مجھ پر گولی چلائی، میں اس وقت 15 سال کی تھی، میں نے دیکھا کہ میرا گھر صرف تین سالوں میں پرامن سے پر خوف میں بدل گیا تھا'۔

ملالہ جسے 2012 میں ایک طالبان بندوق بردار نے اسکول سے واپس گھر جاتے ہوئے گولی مار دی تھی، نے کونسل پر زور دیا کہ وہ 'امن اور سلامتی کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر لڑکیوں کی تعلیم کو تسلیم کرے اور افغان خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کرے'۔

ملالہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ کے لیے بنے اربوں ڈالر کے فنڈ کی سربراہی کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'افغان خواتین اپنے مستقبل کے انتخاب کے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں، کابل میں ان کے احتجاج کو آنسو گیس، اور دیگر ذرائع سے روکا جارہا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے بہت سی افغان خواتین اساتذہ اور وکلا کے ساتھ کام کیا ہے جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں سے تعلیمی نظام کو از سر نو تعمیر کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ان کی کوششوں کی وجہ سے گزشتہ سال افغانستان میں اسکولوں میں جانے والے 39 فیصد طالب علم لڑکیاں تھے، اب وہ ترقی اور ان لڑکیوں کے مستقبل خطرے میں ہیں'۔

ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ انہیں افغانوں سے معلوم ہوا ہے کہ چند مقامات پر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کیے جا رہے ہیں اور اساتذہ اور طالبات کو گھر پر رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے جبکہ بہت سی خواتین اساتذہ کو بتایا گیا کہ ان کے پاس اب نوکریاں نہیں ہیں۔

اگست میں گاڑیوں کی فروخت میں 93 فیصد اضافہ ہوا

'میٹرکس 4' میں مردہ کرداروں کی واپسی، پریانکا بھی فلم کا حصہ

آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے، اسد عمر