پاکستان

تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کوٹ لکھپت جیل سے رہا

سعد رضوی کو رواں برس اپریل میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے حراست میں لیا گیا تھا۔
|

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ترجمان نے کہا ہے کہ سعدحسین رضوی کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔

کوٹ لکھپت جیل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ اعجاز اصغر نے سعد رضوی کی رہائی کی تصدیق کردی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کا نام فورتھ شیڈول سے خارج

ٹی ایل پی کے ترجمان مفتی عابد نے رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سعد رضوی رہائی کے بعد پارٹی کے مرکز مسجد رحمت اللعالمین پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعد رضوی کےوالد اور ٹی ایل پی کے بانی خادم حسین رضوی کی پہلی برسی کےموقع پر 20 اور21 نومبر کو عرس ہوگا۔

قبل ازیں حکومت پنجاب نے گزشتہ ہفتے سعد رضوی کا نام فورتھ شیڈول سے نکال دیا تھا۔

صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری مراسلے میں کہا گیا تھا کہ حافظ محمد سعد ولد خادم حسین کا نام انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی فورتھ شیڈول کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے۔

مراسلے میں کہا گیا تھا کہ ضلعی انٹیلی جنس کمیٹی (ڈی آئی سی) کی سفارش پر ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کا نام فورتھ شیڈول میں رکھا گیا تھا۔

علاوہ ازیں صوبائی محکمہ داخلہ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ حکومت پنجاب نے مزید 487 افراد کےنام بھی فورتھ شیڈول کی فہرست سے نکال دیے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ اس سے قبل بھی ٹی ایل پی کے 90 افراد کے نام فورتھ شیڈول سے نکالے گئے تھے جس کے بعد مجموعی تعداد 577 ہوگئی ہے۔

سعد رضوی کی گرفتاری

یاد رہے کہ رواں سال 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے کابینہ سے منظوری کے بعد ٹی ایل پی پر عائد پابندی ہٹادی

ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی، جس کے پیش نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

ٹی ایل ایل پی احتجاج

19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: پنجاب: 214 ٹی ایل پی کارکنان کے نام فورتھ شیڈول میں شامل

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بعدازاں 28 اکتوبر کو بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار شہید اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن فریقین کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تاہم 30 اکتوبر کو ایک مرتبہ پھر ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور بعد ازاں مفتی منیب الرحمٰن اور مولانا بشیر فاروقی کی ثالثی میں مذاکرات کامیاب ہوئے اور ٹی ایل پی نے وزیرآباد میں اپنا دھرنا ختم کردیا تھا۔

رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے دھرنا ختم کیے جانے کے اگلے روز اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر مملکت علی محمد کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان فرانسیسی سفارتکار کی بے دخلی اور اس کے سفارتخانے کو بند کرنے کے معاملے پر فریقین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات آئندہ ہفتے سامنے آجائیں گی جبکہ معاملات کی نگرانی کے لیے تین رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد کریں گے۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا مقصد جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ

راولپنڈی: 7 سالہ طالبہ کے ریپ کے الزام میں اسکول ٹیچر گرفتار

مشترکہ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کیا کچھ ہوتا رہا؟