دنیا

امریکی سینیٹرز نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کی تجویز مسترد کردی

سعودی عرب کو اسلحہ دینے سے قبل تصدیق لی جائے کہ یہ کسی کو قتل کرنے یا یمن میں جنگ استعمال نہیں ہوگا،سینیٹرز

امریکی سینیٹرز نے اعلان کیا ہے کہ سینیٹرز کے گروپس نے جو بائیڈن حکومت کے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی ہے کیونکہ ریاض یمن کی جنگ متنازعہ کردار ادا کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خرید کنندہ ہے۔

سینٹرز نے امریکا کی جانب سے سعودی عرب کو 65 کروڑ ڈالر کے اسلحے کی تجویز مستردکردی، یہ تجویز ریپبلکن جماعت کے رینڈ پاؤل اور مائیک لی کی جانب سے پیش کی گئی تھی ان کے ساتھ برنی سینڈر بھی شامل تھے، جو ڈیموکریکٹ پارٹی کے رہنما ہے۔

دریں اثنا امریکا کے دیگر قانون ساز تصورکرتے ہیں کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اہم شراکتدار ہے، انہوں نے سعودی عرب کے یمن میں جاری جنگ میں ملوث ہونے پر تنقید کی اور اس جنگ کو دنیا کا تباہ کن انسانی بحران تصور کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت روک دی

انہوں نے بغیر اس تصدیق کے کہ امریکا کے دفاعی آلات کسی شہری کو قتل کرنے میں استعمال نہیں ہوں گے سعودی عرب سے کسی بھی قسم کی دفاعی فروخت کی منظوری سےانکار کردیا۔

سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی منصوبہ بندی اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے احکامات سے بالکل مخالف ہے، جنہوں نے ریاض کے اتحاد اور حوثی باغیوں کی تحریک سے یمن میں جنگی جرائم بڑھنے کی دستاویز پیش کی ہے۔

سعودی عرب کے لیے منظور کیے گیے پیکج میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کنٹینر کے ساتھ 280 اے آئی ایم -120-سی 7 / سی ایٹ ایڈوانس میڈیم رینج کے فضائی میزائل ( اے ایم آر اے اے ایم)، 596 ایل اے یو-128- میزائل ریل لاؤنچرز (ایم آر ایل) شامل کرے گا۔

اس پیکج میں مدد کے لیے آلات، پرزے ، امریکی حکومت کے کنٹریکٹر انجینئر اور تکنیکی حمایت شامل ہوگی۔

رینڈ پاؤل نے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں فروخت اسلحے کی دوڑ میں اضافہ اور فوجی ٹیکنالوجیز کو خطرے میں ڈال کرسکتا ہے‘۔

برنی سینڈر نے کہا کہ جیسا کہ سعودی عرب مسلسل یمن کی تباہ کن جنگ میں ملوث ہےاور اپنے شہریوں پر دباؤ ڈال رہا ہے، تو ہمیں انہیں مزید اسلحہ فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری خارجہ کا سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کا دفاع

خیال رہے کہ یہ میزائل ریتھیون ٹیکنالوجی سے بنائے جاتے ہیں۔

جوبائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ انہوں نے خلیجی اتحادیوں کو دفاعی ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔

جب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسلحہ فروخت کرنے کی تجویز منظور کی تو ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ فروخت حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتی ہے کہ یمن میں تصادم کو ختم کرتے ہوئے سفارت کاری کو فروغ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ فضائی میزائل سعودی عرب کو اس لیےفروخت کیے جارہے ہیں تاکہ سلطنت ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے فضائی حملوں سے اپنا دفاع کر سکے۔

یہ ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی منظوری دستخط شدہ معاہدے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

دوسرے ٹی 20 میں بھی بنگلہ دیش کو شکست، پاکستان کی سیریز میں فیصلہ کن برتری

اسٹیٹ بینک کی متضاد پالیسیاں اور عوام

افغانستان میں بنیادی مسئلہ بھوک نہیں تنخواہوں کی ادائیگی ہے، ریڈ کراس