پاکستان

پیپلز پارٹی کے سینئر پارلیمنٹرینز کا 6 سینیٹرز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

پارٹی قیادت ان آزاد امیدواروں کے بارے میں اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے گی، سینیٹر مصطفیٰ نواز

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے متعدد سینئر پارلیمنٹرینز چاہتے ہیں کہ ان کی قیادت ان 6 آزاد امیدواروں کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی کے وقت ان کی حمایت کی تھی لیکن ووٹنگ کے دوران اپوزیشن کو دھوکا دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات اور دیگر بلز زیر غور آئے تھے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کا سینیٹ انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کے 25 ایم این ایز سے رابطوں کا دعوٰی

پی پی پی کے کئی رہنماؤں نے اعتراف کیا کہ 6 آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنا اور پھر ان میں سے 5 کو اپوزیشن کے کوٹے پر مختلف قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین کے طور پر تعینات کرنا ان کی قیادت کا غلط فیصلہ تھا۔

2018 میں منتخب ہونے والے تمام 6 آزاد سینیٹرز مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات سے قبل حکومتی بنچوں پر تھے اور اچانک انہوں نے چیئرمین صادق سنجرانی کو اپوزیشن بنچوں پر نشستیں الاٹ کرنے کے لیے درخواست جمع کرادی۔

انہوں نے چیئرمین کو بتایا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اعظم نذیر تارڑ کو اس عہدے کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد وہ اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر دلاور خان کی سربراہی میں گروپ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ہی یوسف رضا گیلانی نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنی نامزدگی جمع کرائی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات کیلئے یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی منظور

یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کی وجہ سے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔

مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بعد میں اس عمل پر پی پی پی پر کھل کر تنقید کی اور اسے ’پیٹھ میں چھرا گھونپنا‘ بھی قرار دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن) سے ہونے کا فیصلہ پی ڈی ایم کی ایک کمیٹی نے کیا تھا اور اس کا سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں تھا، جس سے پی ڈی ایم کے امیدوار ہار گئے تھے۔

پیپلز پارٹی نے اعتراف کیا کہ اس نے پہلے سینیٹ چیئرمین کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی کے بدلے میں مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی شکست کے بعد صورتحال بدل گئی۔

30 جون کو قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ گرما گرم تبادلے کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا تھا کہ یہ وہ حکومت ہے جس نے اپنے 6 اراکین کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دلانے میں مدد کی تھی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات: 'پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام بے بنیاد'

آزاد گروپ کے دیگر ارکان میں بلوچستان سے احمد خان، کہدا بابر اور نصیب اللہ بازئی اور سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے ہدایت اللہ خان اور ہلال الرحمٰن شامل ہیں۔

پی پی پی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے رابطہ کرنے پر کہا کہ پارٹی قیادت ان آزاد امیدواروں کے بارے میں اپنے فیصلے پر ’دوبارہ غور‘ کرے گی ’جنہوں نے ہمیں متعدد مواقع پر مایوس کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان سینیٹرز کی حمایت پارٹی کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ تھی۔

سینیٹر مصطفیٰ نواز نے مزید کہا کہ ایک طرف انہیں اپوزیشن کے کوٹے سے 5 کمیٹیوں کی چیئرمین شپ ملی ہے، دوسری طرف وہ جب چاہیں حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ جب یہ گروپ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا تھا تو اپوزیشن کی حمایت کیوں نہیں کر رہا۔

پی پی پی کے ایک اور سینئر سینیٹر نے کہا کہ چونکہ پارٹی یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ یہ لوگ حکومتی یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھیں گے، اس لیے وہ اب بھی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ واپس لے سکتی ہے۔

مزیدپڑھیں: اگر پی ڈی ایم جماعتیں مل کر سینیٹ انتخابات لڑیں تو اچھا مقابلہ کرسکتی ہیں، بلاول

پی پی پی رہنما نے کہا کہ یہ یوسف رضا گیلانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان آزاد امیدواروں اور قیادت کے ساتھ معاملہ اٹھائیں۔

اس معاملے پر یوسف رضا گیلانی حیران کن طور پر الجھے ہوئے پائے گئے اور صورتحال کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ نہیں تھے۔

انہوں نے پہلی مرتبہ دعویٰ کیا کہ اس گروپ کے کچھ ارکان مشترکہ اجلاس کے دوران موجود نہیں تھے اور کچھ نے حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انہوں نے دلاور خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بتایا گیا کہ وہ ملک سے باہر ہیں۔

رابطہ کرنے پر دلاور خان نے اپنے گروپ کے حکومت کو ووٹ دینے کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے انہیں اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

دلاور خان نے کہا کہ پی پی پی، مسلم لیگ (ن) یا جے یو آئی (ف) سے کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا جبکہ حکمران جماعت کے سینیٹرز محسن عزیز، شبلی فراز، اعظم سواتی اور حتیٰ کہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بھی بلز پر حمایت کی درخواست کی۔

کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کے معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو دلاور خان نے کال منقطع کر دی۔

انہوں نے کال منقطع کرتے ہوئے کہا کہ ’تم استدلال کر رہے ہو یا کیا؟ چلے جاؤ‘ ۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا کہ ان کی جماعت نے معاملہ پیپلز پارٹی پر چھوڑ دیا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان 6 افراد کو حکومت نے اختلاف پیدا کرنے کے لیے اپوزیشن کی صفوں میں بھیجا تھا۔

آئی ایم ایف پیکج کی بحالی کیلئے اقدامات کا اعلان آج متوقع

ملک کے 81 اضلاع میں صنفی تفاوت 10 فیصد سے زائد ریکارڈ

فیس ماسک کا استعمال کووڈ کیسز کی شرح 53 فیصد تک کم کرتا ہے، تحقیق