پاکستان

مندروں کی نگرانی اور عمومی انتظامات کیلئے کمیٹی تشکیل

کمیٹی پاکستان آنے والے ہندو یاتریوں کے استقبال، رہائش اور ان کو سفری سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوگی، وزارت مذہبی امور

وزارت مذہبی امور نے ملک بھر میں مندروں کی نگرانی و عمومی انتظامات کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان ہندو مندرز مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی، پاکستان آنے والے ہندو یاتریوں کے سفر اور پاکستان میں ان کو رہائش کی تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوگی تاکہ ہر موقع پر ان کے استقبال اور رخصت سے متعلق اہم اقدامات ممکن بنائے جاسکیں۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ مندر کی انتظامی کمیٹی متعلقہ محکموں کی مدد کرنے کی بھی ذمہ دار ہوگی تاکہ مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان غلط فہمیوں کو ختم کرتے ہوئے دونوں مذاہب کے ماننے والے کو متحد کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: مندر کے معاملے کو بعض مذہبی، سیاسی عناصر نے ایشو بنایا، نورالحق قادری

متعدد مندر متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے زیر انتظام ہیں اور مندروں کی معمول کے مطابق مرمت کے لیے رقم بھی یہی بورڈ فراہم کرتا ہے۔

علاوہ ازیں مندروں میں منعقد ہونے والی مختلف سرگرمیوں اور تقریبات کی ذمہ دار بھی کمیٹی ہی ہوگی۔

سندھ سے کمیٹی کے اراکین میں کرشن شرما شامل ہیں جن کا تعلق مٹھی، تھرپارکر سے ہے، ان کے علاوہ سکھر سے تعلق رکھنے والے دیوان چند چاولہ، کراچی سے تعلق رکھنے والے اشوک کمار، گھوٹکی سے امیت کمار شادانی، موہن داس اور نرنجن کمار جبکہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ورسے مال دیوانی کمیٹی میں شامل ہیں۔

پنجاب سے کمیٹی کے اراکین میں لاہور سے تعلق رکھنے والے امر ناتھ رواندا، راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے میغرا ارورا شامل ہیں جبکہ خیبر پختونخوا سے ہارون سراب کمیٹی کا حصہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کوٹری: وزیراعلیٰ نے مندر میں چوری کا نوٹس لے لیا

کمیٹی کے ایکس آفیشو اراکین چیئرمین ای ٹی پی بی اور جوائنٹ سیکریٹری وزارت مذہبی امور ہیں جبکہ کمیٹی کے سیکریٹری، املاک بورڈ کے ایڈیشنل سیکریٹری (مزارات) ہوں گے۔

مندروں میں صبح اور شام کی عبادات کا انتظام کرنے کی ذمہ داری بھی کمیٹی کی ہوگی جبکہ ہر مندر کے فنڈز جمع کرنے کے لیے علیحدہ اکاؤنٹ بنایا جائے گا۔

یہ جلتی آنکھوں اور گھٹتی سانسوں کو بچانے کا وقت ہے

چاغی میں پاک ۔ ایران سرحد پر نئی گزرگاہ کا افتتاح

کورونا وائرس: پاکستان میں اومیکرون ویرینٹ کا پہلا ’مشتبہ‘ کیس رپورٹ