پاکستان

پائلٹ سے گفتگو پر سزا کےخلاف لیکچرار کی لاہور ہائیکورٹ میں درخواست

درخواست گزار کو پی اے ایف پائلٹ کے ساتھ ہوئی ٹیلیفونک گفتگو سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے بعد کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا، رپورٹ

پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے ایک سویلین لیکچرر نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی)، راولپنڈی بینچ میں ایک پائلٹ کے ساتھ لیک ہونے والی کال پر اپنی سزا کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔

مذکورہ پائلٹ ان کے سابق طالبعلم ہیں، فون کال پر انہوں نے پائلٹ کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا لڑاکا طیارہ گرانے پر مبارک باد دی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی اے ایف کالج لوئر ٹوپہ مری میں کام کرنے والے درخواست گزار حافظ فاروق احمد خان کو پی اے ایف پائلٹ کے ساتھ ہوئی ٹیلیفونک گفتگو سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے بعد کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کیس کی تفصیلات کے مطابق فاروق خان کو جون 1999 میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پی اے ایف کالج میں سول لیکچرار کے طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:مشن میں ناکامی کے باوجود بھارتی پائلٹ ابھی نندن کیلئے تیسرا بڑا فوجی اعزاز

انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت ملزم ٹھہرانے کے بعد کورٹ مارشل نے سزا سنائی تھی۔

اپنی درخواست میں فاروق احمد خان نے کہا کہ 27 فروری 2019 کی شام وہ اور ان کی اہلیہ پی اے ایف کالج لوئر ٹوپہ میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے۔

درخواست میں بتایا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دوران پاک فضائیہ کی جانب سے دو بھارتی طیاروں کو مار گرائے جانے کی خبریں دیکھتے ہوئے فاروق خان نے اپنے پرانے طالب علم کو، جو کہ فضائیہ کا لڑاکا پائلٹ تھا، مبارکباد دینے کے لیے فون کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ کال 2 منٹ 27 سیکنڈز پر محیط تھی، اس دوران فاروق خان نے پائلٹ کے ساتھ تہینتی ریمارکس کا تبادلہ کیا اور پائلٹ نے درخواست گزار کے پوچھے بغیر خود ہی بتایا کہ جو کچھ میڈیا پر دکھایا جارہا ہے وہ 30 فیصد بھی نہیں اور زمین پر 350 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارتی جنگی قیدی ابھی نندن سے متعلق بیان میں تاریخ مسخ کی گئی، میجر جنرل بابر افتخار

جس کے بعد درخواست گزار نے وضاحت کی کہ کال کس طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی خوشی اور فخر کے احساس میں انہوں نے وہی کال اپنے 61 عزیز و اقارب کو بھیج دی جس کے بعد وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور پاک فضائیہ کی ایئر انٹیلیجنس ایجنسی کے نوٹس میں آگئی۔

درخواست گزار استاد کو 8 جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا اور پی اے ایف ایکٹ 1953 کے سیکشن 71 کے تحت چار الزامات کے تحت ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔

ان پر دورانِ گفتگو پی اے ایف کے ایئر آپریشنز کی معلومات ریکارڈ کر کے پر ریاست کے تحفظ یا مفاد کے خلاف کسی مقصد کے لیے جرم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا ، جو بلواسطہ یا بلا واسطہ دمشن کے لیے مفید ہوسکتا تھا۔

اس کے علاوہ لگائے جانے والے الزامات میں ’معلومات/دستاویز کی غیر مجاز ملکیت، اس کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر لیک ہونا اور 60 سے زائد رابطوں کو ایئر آپریشنز سے غیر مجاز طور پر آگاہ کرنا‘ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مشتعل ہجوم سے بچانے پر پاک فوج کے جوانوں کا شکر گزار ہوں، بھارتی پائلٹ

کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران، خان نے ’بے گناہ‘ کی استدعا کی جس کے بعد استغاثہ نے 11 گواہوں کے شواہد ریکارڈ کیے اور کچھ دستاویزات پیش کیں جب کہ اپنے دفاع میں استاد نے اپنی بیوی اور چار دیگر گواہوں کو پیش کیا۔

فاروق خان کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے دو سال آٹھ ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی تھی تاہم بیس کمانڈر نے آٹھ ماہ کی سزا معاف کر کے اسے 24 ماہ کر دیا تھا۔

اس کے بعد درخواست گزار نے پی اے ایف اپیلیٹ ٹریبونل میں اپیل دائر کی جس میں مزید ایک سال اور دو ماہ کی سزا معاف کر دی گئی تھی۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ چونکہ نظرثانی کے لیے کوئی متبادل فورم دستیاب نہیں لہٰذا لاہور ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے آئینی دائرہ اختیار کو انصاف کے انتظام کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔